پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری گرفتار
21 مئی 2022
پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والی خاتون سیاست دان شیریں مزاری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہیں زمین ہتھیانے کے ایک عشروں پرانے الزام میں حراست میں لیا گیا۔
اشتہار
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ 21 مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت میں وفاقی کابینہ کی رکن شیریں مزاری کو جس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، وہ غیر قانونی طور پر زمین ہتھیانے سے متعلق اور عشروں پرانا ہے۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کی ان کی بیٹی ایمان مزاری اور ایک سابق وفاقی وزیر نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مزاری کو اسلام آباد سے حراست میں لیا گیا۔
شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ان کی والدہ اور عمران خان کی سابق حکومت کی وزیر شیریں مزاری کو پولیس نے ان کے گھر کے قریب سے حراست میں لے لیا۔ ایمان مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''پولیس کے مرد اہلکاروں نے میری والدہ کو پیٹا اور پھر انہیں ساتھ لے گئے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ انہیں لاہور میں انسداد بدعنوانی کے محکمے کے اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے۔‘‘
ایک مقامی ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی فوٹیج کے مطابق شیریں مزاری کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس خواتین اہلکاروں نے حراست میں لیا۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز رہنے والے فواد چوہدری نے پاکستانی ٹیلی وژن جیو نیوز کو بتایا کہ مزاری کو اینٹی کرپشن پولیس نے گرفتار کیا اور گرفتاری کے وقت اس خاتون سیاست دان سے بدسلوکی کرنے کے علاوہ انہیں پیٹا بھی گیا۔
پی ٹی آئی کی سینیئر رہنما
شیریں مزاری سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ایک سینیئر رہنما ہیں۔ فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ ان کی گرفتاری کی وجہ بننے والے الزام کے محرکات سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہیں اور زمین کے جس تنازعے کی بنیاد پر انہیں حراست میں لیا گیا ہے، اس کا تعلق 1972ء سے ہے۔
اشتہار
شیریں مزاری پاکستانی پارلیمان میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت پر اپنے ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔
عمران خان اقتدار سے باہر ہو جانے کے بعد سے اب تک ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کی صورت میں ایک ایسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے ذریعے وہ موجودہ حکومت کو ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
مزاری کی گرفتاری پر ملک بھر میں تنقید
شیریں مزاری بعض معاملات میں ملکی فوج پر بھی کھل کر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری کی پاکستان بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ بہت سے حلقے اسے موجودہ حکومت کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو نشانہ بنانے کی سیاسی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے ٹوئٹر پر شیریں مزاری کی گرفتاری کی تصدیق تو کر دی ہے مگر ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان سے کوئی بدسلوکی کی گئی یا انہیں مارا پیٹا گیا۔
کئی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ شیریں مزاری کی گرفتاری موجودہ حکومت کی ایسی کوشش ہے، جس کا مقصد پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس احتجاجی مارچ میں شرکت سے روکنا ہے، جس کا عمران خان نے اعلان کر رکھا ہے۔
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کا حکم
پاکستانی میڈیا کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے شیریں مزاری کی گرفتاری کا سخت نوٹس لیا ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی ہدایت پر شیریں مزاری کی رہائی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ آخری اطلاعات ملنے تک پاکستان میں ہفتے کی شام تک شیریں مزاری کو رہا نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے سیاسی انتقام کی بو آتی ہے، جو اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔
اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت میں شامل ایک اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے اسے 'سیاسی جبر کی بد ترین شکل‘ قرار دیا ہے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، اے پی، ٹوئٹر)
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔