پاکستان میں انسانی حقوق: ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
شیراز راج برسلز
9 دسمبر 2018
مبصرین کے مطابق پاکستانی ریاست قومی سلامتی کے نام پر عوام کے آئینی، شہری اور جمہوری حقوق سلب کر رہی ہے اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ زباں بند معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
اشتہار
اس کے علاوہ ملکی معیشت بھی ریاستی پالیسیوں تلے سسک رہی ہے۔ انسانی حقوق محض چند قوانین اور ان سے متعلقہ اصطلاحات کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی انہیں چند وزارتوں، محکموں، کمشنوں یا غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی بیرونی ایجنڈا یا سازش بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کا تصور پاکستان کے اثبات کا ورثہ ہے۔ احترام آدمیت، وقار انسانی، مساوات، انصاف، انسان دوستی، روشن خیالی اور جمہوریت نوازی کو ’مغربی سازش‘ قرار دینا اپنی مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی توہین کے مترادف ہے۔
پاکستان کی تحریک آزادی کے معماروں نے ایک اقلیت کے حقوق کی آواز اٹھائی تھی، انسانی مساوات اور عوام کے حق حکمرانی کا مطالبہ کیا تھا۔ قائد اعظم کہلانے والے بانی پاکستان محمد علی جناح نے ایک سیکولر، ترقی پسند اور جمہوری مملکت کی تشکیل کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا۔ اسی طرح آئین پاکستان (1973) میں دیے گئے انسانی حقوق بھی کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔
پاکستان کا آئین قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی طے کرتا ہے، ریاستی اداروں کے اختیارات و حدود واضح کرتا ہے اور تمام تر بنیادی حقوق کی یقین دہانی کراتا ہے، جیسے کہ حق زندگی، مساوی اور منصفانہ قانونی حقوق، آزادی رائے، تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی اور تنظیم سازی وغیرہ کے حقوق۔
پاکستان نے جب انسانی حقوق کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے، تو اس پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا۔ اسی طرح پاکستان نے اس اعلامیے سے متعلق تمام تر اہم دستاویزات پر دستخط کر رکھے ہیں، جن میں شہری و سیاسی حقوق کا اعلامیہ، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا اعلامیہ، صنفی امتیاز کے خاتمہ کا اعلامیہ، حقوق اطفال کا اعلامیہ، تشدد سے تحفظ کا اعلامیہ اور نسل پرستی کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے تحفظ کا اعلامیہ بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی حالیہ رپورٹ
لاپتہ ہونے والے افراد کون ہیں؟
پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران طالبان مخالف پانچ ایسے بلاگرز پرسرار طور پر لاپتہ ہو گئے، جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ لاپتہ ہونے والی یہ شخصیات کون ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
ثمر عباس
پاکستانی شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ثمر عباس انتہا پسندی کے خلاف قائم ’سول پروگریسیو الائنس‘ کے سربراہ ہیں۔ عباس کے ساتھی طالب رضا کے بقول عباس ایک محب وطن شہری ہیں اور وہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے حق میں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کوئی ریاست مخالف رویہ نہیں ہے۔
تصویر: privat
سلمان حیدر
انسانی حقوق کے فعال کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری بروز جمعہ اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم سلمان حیدر انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن ہیں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کے بارے میں بھی مہم چلا رہے ہیں۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ ایک کالم نویس اور تھیٹر آرٹسٹ کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
احمد وقاص گورایہ
سوشل میڈیا پر فعال احمد وقاص گورایہ (دائیں) چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ وقاص سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہالینڈ میں رہنے والے وقاص چھٹیوں پر پاکستان گئے تھے کہ لاپتہ ہو گئے۔ سائبر سکیورٹی تھنک ٹینک ’بائیٹس فار آل‘ کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان سرگرم سماجی کارکنوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خوف پیدا ہو چکا ہے۔
عاصم سعید
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عاصم سعید بھی چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ سنگاپور سے پاکستان جانے والے عاصم سعید کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشرفت پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ امریکا نے بھی یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
احمد رضا نصیر
سوشل میڈیا پر بہت فعال احمد رضا نصیر سات جنوری کو اچانک لاپتہ ہو گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پولیو کے مرض کے جسمانی اثرات کا بھی سامنا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کے لیے اسلام آباد اور کراچی میں احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
5 تصاویر1 | 5
گزشتہ ماہ کی 13 تاریخ کو ای یو (یورپی یونین) پاکستان مشترکہ کمشن کے ضمنی گروپ کے آٹھویں اجلاس کے موقع پر انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس اور پاکستان انسانی حقوق کمشن نے 2018 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی، جس کے مندرجات کا سرسری جائزہ پیش کرنا یہاں اس لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں ادارے انتہائی معتبر گردانے جاتے ہیں، جن کے دامن پر دروغ گوئی یا جانب داری کا کوئی داغ نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں جمہوری حقوق کی بات کرتے ہوئے حالیہ عام انتخابات کا مختصر مگر جامع تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ انتخابات گو کم و بیش پرامن رہے مگر نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر، عین موقع پر آر ٹی ایس سسٹم میں خرابی، پولنگ ایجنٹوں کی غیرموجودگی میں ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 کی عدم دستیابی نے سنگین شبہات کو جنم دیا۔
رپورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے فوجی اہلکاروں کی غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں تعیناتی پر تنقید کی گئی، جو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر موجود تھے اور جنہیں مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔
لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2011 میں قائم کردہ عدالتی کمیشن کو 5290 درخواستیں موصول ہوئیں۔ کمیشن کئی کیسوں کو نمٹانے کا دعوے دار ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ گمشدگی کے واقعات کی ٹھوس تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو نہ صرف کوئی بھی مالی معاونت حاصل نہیں بلکہ انہیں اپنے لیے انصاف کے حصول کی کوششوں کے دوران ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔ موجودہ قوانین فوج کو غیر معینہ مدت کے لیے اور کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر کسی کو بھی گرفتار کر لینے کا اختیار دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے ابھی تک جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ کے عالمی اعلامیے پر بھی دستخط نہیں کیے۔
پاکستان سزائے موت پر عمل درآمد کرنے والے پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے حالانکہ اس نے شہری اور سیاسی حقوق کے اعلامیے اور غیرانسانی اور بھیانک سزاؤں کے خلاف اعلامیے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں 124 افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور 10 افراد کو پھانسی دی گئی۔ اکتوبر 2018 تک فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت پانے والے 43 افراد کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 37 افراد کو سزائے موت سنائی۔
اظہار رائے کے حق کے حوالے سے اس رپورٹ میں انتہائی سنگین صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ریاست، حکومت اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں، بلاگروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کو دھونس دھاندلی، جبر و تشدد، اغوا، قتل اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پانچ جون 2018 کو، عینی شاہدین کے مطابق، خاتون صحافی گل بخاری کو اغوا کیا گیا۔ انہیں چند گھنٹوں بعد رہائی مل گئی لیکن اغوا کاروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے ڈان میڈیا گروپ کے صحافی سرل المائڈا کے وارنٹ گرفتاری اور ان پر غداری کے مقدمے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس طرح سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو کرنے کے بعد بیس شہروں اور قصبوں میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اپریل میں جیو ٹیلی وژن کو کیبل آپریٹروں نے صوابدیدی طور پر بند کر دیا، جسے بعد ازاں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے ساتھ ’ڈیل‘ کے بعد کھولا جا سکا۔
2016 میں ایک قانون بنایا گیا، جس کے تحت ڈیجیٹل حقوق پر تلوار لٹکا دی گئی۔ پاکستان میں اٹھارہ غیر ملکی امدادی اداروں کو اپنی کارروائیاں بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ رپورٹ میں 2018 کے دوران عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافت کو ایک غیر مرئی سنسرشپ کا سامنا ہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں پہلی مرتبہ میڈیا کا گلا دبانے کے لیے معاشی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری اور نجی اشتہارات کو ملا کر میڈیا کی اس مد میں سالانہ آمدنی قریب 80 ارب روپے بنتی ہے۔ اس میں حکومتی اشتہارات کے تقریباﹰ چالیس ارب روپے بھی شامل ہیں۔ اب حکومت کہتی ہے کہ وہ سات ارب روپے سے زائد کے اشتہارات نہیں دے گی۔ دوسری طرف نجی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تمام اخبارات اپنی اشاعت کے چار چار صفحات کم کر چکے ہیں اور ٹیلی وژن چینلوں سے بھی صحافیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں آزادی رائے اور آزادی صحافت بالکل ختم ہو چکی ہے۔‘‘
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
ڈی ڈبلیو اردو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صنفی حقوق کی سرکردہ کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرہ پہلے سے زیادہ پرتشدد ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ملک میں انتہا پسندی بڑھی ہے۔ ریاست عدم مساوات، غربت اور بے روزگاری کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت خود ریاست انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے۔ جبری گمشدگیوں کا معاملہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو بھی غائب کیا جا رہا ہے۔ ریاست جیسے جیسے عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی میں ناکام ہو رہی ہے، ویسے ویسے اس کی قوت برداشت میں بھی کمی ہو رہی ہے۔‘‘ فرزانہ باری کے مطابق خواتین کے حوالے سے کچھ اچھی قانون سازی ہوئی ہے تاہم اس پر عمل درآمد تاحال ایک چیلنج ہے۔
معروف صحافی اور دانشور وجاہت مسعود نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ریاست کا معاشی اور سماجی ماڈل عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے لیکن ’’اسے درست کرنے کے بجائے، اس پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے اور مزاحمت اور ردعمل کے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں۔‘‘
وجاہت مسعود کے مطابق، ’’صحافت ہو، سیاسی جماعتیں ہوں، وکلاء تنظیمیں ہوں یا انسانی حقوق کے ادارے، سبھی اس دباؤ کا شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے حالیہ حالات و واقعات کے تناظر میں یہ بھی کہا، ’’پاکستان اس وقت آسیہ بی بی کے حق انصاف اور تحریک لبیک کی مذہبی انتہا پسندی کے دوراہے پر کھڑا ہے۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔