1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اومیکرون وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق کر دی گئی

13 دسمبر 2021

پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ جس مریض میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے، اس کا تعلق پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی سے ہے۔

USA Coronavirus l COVID-19 Test Zentrum In Houston
تصویر: Brandon Bell//AFP/Getty Images

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے ایک ٹویٹ میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے،''حال ہی میں ایک کراچی سے ملنے والا مشتبہ نمونہ درحقیقت اومیکرون ویریئنٹ ہے۔‘‘ جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''یہ پہلا تصدیق شدہ کیس ہے لیکن مشتبہ نمونوں کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ رجحان کی شناخت کی جا سکے۔‘‘

پاکستانی وزارت صحت کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اومیکرون کا مشتبہ کیس گزشتہ ہفتے سامنے آیا تھا اور حکام نے اسی وقت اس حوالے سے چھان بین کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اومیکرون سے متاثرہ مریض ایک نجی ہسپتال میں سامنے آیا تھا اور پھر مشتبہ وائرس کی شناخت کے لیے سیمپل اسلام آباد روانہ کر دیا گیا تھا۔ پاکستان نے حال ہی میں اومیکرون کے خطرے کے پیش نظر متعدد ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

اومیکرون کتنا خطرناک ہے؟

جرمن ڈاکٹروں کے مطابق اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جانا ضروری ہیں کیوں کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی یہ قسم زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اومیکرون کے اولین کیسز جنوبی افریقہ اور ہانگ کانگ میں سامنے آئے تھے اور اسے 'ہائی رسک‘ وائرس قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اس کے پھیلنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لیکن امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پھیلتا تو تیزی سے ہے لیکن خطرے کے حوالے سے یہ کورونا وائرس کی قسم اتنی ہی خطرناک ہے، جتنی کہ پہلے سے موجود ڈیلٹا ہے۔

 بوسٹر لگوانا ضروری ہے

جرمن شہر میونخ سے تعلق رکھنے والی وائرولوجسٹ اُریکے پروٹسرکے مطابق اومیکرون کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی پھیلتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا وائرس کی بوسٹر خوراک لگوائیں۔

وائرولوجسٹ پروٹسر کے مطابق کووِڈ انیس کے خلاف لگوائی گئی ویکسین اومیکرون کے خلاف بھی فعال ہوتی ہے تاہم جسم میں موجود اینٹی باڈیز اتنی نہیں ہوتیں کہ وہ اس وائرس کو شکست دے سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جنہیں کورونا ویکسین کی دوسری خوراک لگوائے اب کچھ وقت گزر چکا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ ایک بوسٹر خوراک لگوا لیں۔ یوں جسم میں اینٹی باڈیز کی تعداد ایسی ہو گی، جو اس وائرس سے بہتر انداز سے لڑ سکے۔

ا ا / ع ح ( روئٹرز، ڈی ڈبلیو)

قوت مدافعت بڑھانے کے ليے کون سے کھانے مفید؟

02:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں