پاکستان میں اگلے ماہ کورونا کی وبا کی چوتھی لہر کا خدشہ
28 جون 2021
پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کے دوران گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ہلاکتوں کی یومیہ تعداد اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔ طبی ماہرین نے تاہم اگلے ماہ ملک میں اس عالمی وبا کی چوتھی لہر کے خلاف خبردار کیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے پیر اٹھائیس جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملک میں کووڈ انیس کی عالمی وبا کی تیسری لہر کے دوران بھی سینکڑوں شہریوں کی اموات ریکارڈ کی گئیں تاہم یومیہ بنیادوں پر پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران ان اموات کی تعداد صرف 20 رہی، جو کم ترین یومیہ تعداد بنتی ہے۔
ملکی وزارت صحت کے حکام نے بتایا کہ یہ پورے ملک میں گزشتہ نومبر سے اب تک ریکارڈ کی جانے والے ہلاکتوں کی کم ترین یومیہ تعداد ہے۔
اس جنوبی ایشیائی ملک میں اس وبا کی وجہ سے اب تک 22 ہزار 231 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کورونا وائرس کی انفیکشنز کی رجسٹرڈ تعداد نو لاکھ 55 ہزار چھ سو ستاون ہو چکی ہے۔
پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
تصویر: DW/G. Kakar
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
9 تصاویر1 | 9
'شہریوں کا ماسک نہ پہننا خطرناک‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی معاون فیصل سلطان نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا، ''یہ ایک پُر خطر اور تشویشناک رجحان ہے کہ عام شہری اب اپنے چہروں پر حفاظتی ماسک نہیں پہن رہے۔ صورت حال اس وقت تو قابو میں ہے، مگر ہمیں اگلے ماہ اس وبا کی نئی (چوتھی) لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جولائی میں ہی عیدالاضحیٰ کا اسلامی تہوار منایا جائے گا، جس دوران بہت گہما گہمی دیکھنے میں آتی ہے اور ملک بھر میں قربانی کے جانوروں کی ہزاروں منڈیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔
کورونا ویکسین لگوائیں یا نہیں، پاکستانی عوام کی سوچ منقسم
وزیر اعظم کے معاون خصوصی فیصل سلطان نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں سے باہر نکلتے وقت حفاظتی ماسک پہنیں اور جلد از جلد کورونا وائرس کے خلاف حفاظتی ٹیکے بھی لگوائیں۔
اشتہار
ویکسینیشن مہم میں دوبارہ تیزی
پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن مہم میں کچھ عرصہ قبل ویکسینز کی کمیابی کی وجہ سے کافی سست روی دیکھی گئی تھی۔ اب لیکن عوامی ویکسینیشن میں دوبارہ تیزی آ چکی ہے۔ ملکی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پورے ملک میں مزید دو لاکھ نوے ہزار سے زائد شہریوں کو کورونا ویکسین لگائی گئی۔
اب تک پاکستان میں 14.7 ملین سے زائد شہریوں کو کورونا ویکسین کا کم از کم ایک ٹیکہ لگایا جا چکا ہے۔
کورونا اور پاکستانیوں میں خدمت خلق کا جذبہ
کورونا کی وبا نے لاکھوں پاکستانی خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ کچھ بیماری سے متاثر ہوئے اور کچھ کا روزگار چلا گیا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے اپنے ہم وطنوں کی دل کھول کر خدمت بھی کی۔ بھلا کیسے؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Syeda Fatima
مریضوں کو کھانا پہنچانا
لاہور کی سیدہ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب ان کی سہیلی کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تو انہوں نے اپنی سہیلی کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ فاطمہ کو اندازہ ہوا کہ بہت سے مریض ایسے ہیں جنہیں صحت بخش کھانا میسر نہیں ہو رہا۔ انہوں نے پچیس متاثرہ افراد کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ بیس دنوں سے جاری ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
ایک سو بیس افراد کے لیے مفت کھانا
اب فاطمہ روزانہ ایک سو بیس افراد کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ فاطمہ اس کام کا معاوضہ نہیں لیتیں۔ وہ روز صبح سات بجے کام شروع کرتی ہیں۔ وہ رائیڈر کے ذریعے کھانے کا پہلا حصہ دن دس بجے بھجوا دیتی ہیں۔ جس کے بعد وہ باقی مریضوں کے لیے کھانا بنانا شروع کرتی ہیں اور پھر اسے بھی مریضوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
طلبا کی مشترکہ کاوش
مریم ملک پاکستان میں سافٹ ویئرکی طالبہ ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کس طرح مریض کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دو دیگر طلبا کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کے لیے کھانا پکانا شروع کیا۔ یہ تینوں طلبا روزانہ سرکاری ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو روزانہ گھر کا تیار کیا کھانا فراہم کرتی ہیں۔
تصویر: privat
روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں
مریم اور دیگر طلبا یہ سہولت بالکل مفت فراہم کرتی ہیں اور ڈیڑھ سو افراد کو روزانہ کھانا فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ان مریضوں کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم ہو گیا ہے اور انہیں روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں۔ یہ طلبا گزشتہ پندرہ دنوں سے لوگوں کو کھانا پہنچا رہی ہیں۔
تصویر: privat
کورونا ریکورڈ واریئرز
یہ فیس بک پیج کورونا وائرس کے مریضوں کو پلازما عطیہ فراہم کرنے والے افراد سے ملاتا ہے۔ اس فیس بک پیج کے ذریعے اب تک ساڑھے چار سو مریضوں کو پلازما مل چکا ہے۔
تصویر: Facebook/Z. Riaz
مفت طبی مشورے
اس فیس بک پیج کا آغاز کورونا وائرس کے پاکستان میں ابتدائی دنوں میں ہوا۔ اس پیج کے تین لاکھ سے زائد میمبر ہیں۔ اس فیس بک پیج پر نہ صرف پلازما عطیہ کرنے میں مدد کی جاتی ہے بلکہ ڈاکڑ خود طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔
تصویر: Privat
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن عزیر محمد خان نے اپنے علاقے میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کورونا وائرس سے متعلق آگاہی مہم کا آغاز کیا۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ خاندانوں کو راشن بھی فراہم کیا اور چندہ کر کے طبی ماہرین کو میڈیکل سازو سامان بھی فراہم کیا۔
تصویر: E. Baig
چترال کے متاثرہ افراد کی مدد
عزیر محمد خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیبر پختونخواہ اور چترال میں متاثرہ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ عزیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے مساجد میں صابن فراہم کیے تاکہ وہاں جانے والے صابن ضرور استعمال کریں۔
تصویر: E. Baig
آکسیمیٹر کا عطیہ
کورونا ریکورڈ وارئیرز گروپ کا کہنا ہے کہ انہیں کئی پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں کی جانب سے مفت آکسیمیٹر کا عطیہ دیا گیا۔
تصویر: Zoraiz Riaz
وٹامنز کا عطیہ
معیز اویس ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ہے۔ انہوں نے ہزاروں روپے کی مالیت کی دوائیاں اور وٹامنز کا عطیہ دیا۔
تصویر: Hyan Pharma
10 تصاویر1 | 10
بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کا احتجاج
پاکستان میں بیرون ملک کام کرنے والے ایسے ملکی شہریوں کی طرف سے احتجاج کی رپورٹیں بھی ملی ہیں، جو پاکستان آئے ہوئے ہیں مگر اب تک واپس نہیں جا سکے۔ تارکین وطن کے طور پر بیرونی دنیا میں کام کرنے والے ان پاکستانی شہریوں کے احتجاج کی وجہ ملک میں بائیو این ٹیک فائزر اور ایسٹرا زینیکا ویکسین کی کمیابی بنی۔
یہی وہ دو ویکسینز ہیں، جن کے بارے میں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کا مطالبہ ہے کہ واپس لوٹنے والے تارکین وطن کارکنوں نے انہی میں سے کوئی ویکسین لگوائی ہوئی ہو۔
پاکستان میں عام شہریوں کی اکثریت کو اب تک زیادہ تر چینی ساختہ سائنو فارم، کین سائنو بائیو یا سائنو ویک نامی ویکسینز لگائی گئی ہیں۔ مگر یہ وہ ویکسینز ہیں، جنہیں مشرق وسطیٰ کی ریاستیں اور مغربی ممالک اپنے ہاں آنے والے مسافروں کی مناسب ویکسینیشن کے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتیں۔
م م / ع ح (ڈی پی اے)
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔