1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو تفریق کا سامنا

31 مارچ 2023

شمال مغربی پاکستان میں بڑی تعداد میں بچوں میں ایچ آئی وی پوزیٹیو کیسز کا پتہ چل رہا ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ سرجری سے قبل کی لازمی جانچ اور عوام میں بڑھتی ہوئی بیداری اس کی اہم وجہ ہے۔

Pakistan HIV-Test
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

اجمل خان اور کلثوم بی بی (رازداری کے تحفظ کے لیے ان کی درخواست پر نام تبدیل کیے گئے ہیں) تقریباً 10 برس قبل ایچ آئی وی کے ٹیسٹ میں مثبت آنے کے بعد سے، پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں معاشرے سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں۔

ایڈز: ’بڑی مصیبت‘ سے بچنے کے لیے سرمایے کی ضرورت

ان کا تعلق بہت ہی قدامت پسند برادری سے ہے۔ ان کے زیادہ تر پڑوسیوں کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی کا وائرس صرف غیر قانونی جنسی تعلقات سے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ تاہم پشاور شہر سے تعلق رکھنے والا یہ غریب جوڑا غیر ازدواجی طریقے سے جنسی عمل میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے۔

’میں کیوں زندہ رہا‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ آلودہ سرینج کے ذریعے اس وائرس سے متاثر ہوئے، تاہم ان کے بیشتر رشتے دار اور جاننے والے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی بنیاد پر ان کے ساتھ تفریق برتی جا رہی ہے۔

ایڈز: مزید آگاہی کی اشد ضرورت

ان کے چار کم عمر بچوں میں سے، ایک لڑکی اور ایک لڑکا بھی ایچ آئی وی وائرس سے پوزیٹو پائے گئے ہیں۔ وہ صوبے میں پائے جانے والے ایسے 394 ایچ آئی وی پازیٹیو بچوں میں شامل ہیں، جن کا اگر علاج نہ کیا گیا تو وہ ایکوائرڈ امیونو ڈیفیشینسی سنڈروم (ایڈز)  کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

جنوبی پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کی وبا

اس جوڑے کو اب اپنے غیر صحت مند بچوں کے مستقبل کی فکر بڑھتی جا رہی ہے۔

ایڈز کا عالمی دن، اموات کی شرح اپنی نچلی ترین سطح پر

45 سالہ اجمل خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم مسلسل اس خوف میں جی رہے ہیں کہ جلد ہی ہماری موت ہو جائے گی۔ اگر یہ خوف سچ ثابت ہوا، تو اس بے رحم معاشرے میں میرے چھوٹے بچوں، خصوصاً بیٹیوں کا کیا ہو گا جو اس بیماری سے متاثر نہیں ہیں؟ یہی سوچ کر رات میں ہمیں نیند تک نہیں آتی ہے۔''

ہر تیسرے منٹ میں ایک نو عمر لڑکی ایچ آئی وی سے متاثر، یونیسف

ایچ آئی وی کے انفیکشن میں اضافہ

تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس صوبے میں جن بچوں کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے ان میں سے بہت سے بچے مثبت پائے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کے انٹیگریٹڈ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور تھیلیسیمیا کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اصغر خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ جو سرکاری اعداد و شمار شیئر کیے، اس کے مطابق سن 2020 سے 2022 کے درمیان 168 بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے 112 لڑکے اور 56 لڑکیاں تھیں۔

ایچ آئی وی کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہیں، کیونکہ بہت سے مرد، خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

اس پروگرام کے تحت سن  2020 میں 22  سن 2021 میں 25 اور 2022 میں 65 لڑکوں کو پوزیٹیوپایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، 2020 میں 10، 2021 میں 13 اور 2022 میں 33 لڑکیوں میں بھی اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ پہلے سے معلوم شدہ کیسز کو اگر اس تعداد کے ساتھ ملا دیا جائے تو یہاں آیچ آئی وی پوزٹیو بچوں کی سرکاری تعداد اب 400 کے آس پاس بنتی ہے۔

ایچ آئی وی کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہیں، کیونکہ بہت سے مرد، خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ صوبے میں 2005 سے اب تک ایچ آئی وی کے 6,064 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ اس میں زیادہ تر کا تعلق ضلع پشاور سے ہے۔ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں (903) اور (722) کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ مجموعی طور پر 864 افراد اس وائرس سے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

حکام تصدیق شدہ کیسز میں حالیہ اضافے کی وجہ سرجری سے پہلے لازمی ایچ آئی وی ٹیسٹنگ کے ساتھ ہی عوامی سطح پر بہتر بیداری بتاتے ہیں۔

ایچ آئی وی کنٹرول پروگرام سے وابستہ ڈاکٹر اصغر کا کہنا ہے: ''سن 2018 میں ہمارے (خیبر پختونخوا) کے محکمہ صحت نے کسی بھی طرح کی سرجری کی ضرورت والے لوگوں کے لیے ایچ آئی وی کی جانچ کو لازمی قرار دیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں ایچ آئی وی کے کیسز زیادہ سامنے آنے لگے۔''

ان کا مزید کہنا تھا: ''ایچ آئی وی کے بارے میں عوامی آگاہی، جانچ اور علاج تک آسان رسائی کے ساتھ ہی صحت کی سہولیات اور اداروں کے درمیان مضبوط ہم آہنگی اور تعاون نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔''

ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے

اجمل خان نے بتایا کہ وہ اور ان کی اہلیہ اور بچے اپنے وسیع خاندان کے ساتھ ایک مشترکہ گھر میں رہتے تھے، لیکن ایچ آئی وی کی تشخیص کے فورا بعد انہیں گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا، ''ہمیں سماجی رد، امتیاز اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے ہی لوگوں کے درمیان ہمیں اپنے آپ کو ایک اچھوت کے طور پر محسوس کرنا پڑا۔ لیکن ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔ گرچہ طبیعت ناساز رہتی ہے، تاہم میں ایک بڑھئی کے ساتھ یومیہ اجرت پر کام کرتا ہوں، جب کہ میری بیوی گھر میں رہتی ہے اور گھر کا انتظام سنبھالتی ہے۔''

ایچ آئی وی سے متاثرہ ایک 34 سالہ خاتون اپنے متاثرہ 7 سالہ بچے کے ساتھ، اپنے خاندان سے میلوں دور ضلع چارسدہ کے ایک گاؤں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ ان کا بھی علاج چل رہا ہے، تاہم بے دخلی کے خوف کی وجہ سے انہوں نے گاؤں کے کسی بھی شخص کو اپنی بیماری کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دراصل میرے شوہر یہ وائرس لائے تھے اور اسے ہم تک پہنچایا لیکن معاشرے میں اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کی خاطر انہوں نے مجھ سے اسے خفیہ رکھنے کو کہا۔اس معاشرے میں بیشتر کا خیال یہی ہے کہ یہ صرف غیر قانونی (غیر ازدواجی) جنسی تعلقات سے ہی پھیلتا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''چھ برس پہلے ان کی موت کے بعد میں نے اس بارے میں گھر والوں کو بتا دیا۔ تاہم مجھے شدید طور پر مایوسی اور صدمہ اس بات کا ہے کہ میری سسرال والوں نے مجھے گاؤں سے باہر نکال دیا اور میرے حقیقی بھائیوں نے بھی میری کوئی مدد نہیں کی۔ اس لیے میں یہاں آئی اور روزی روٹی کے لیے چائے بناتی ہوں۔''

اپنے مرض کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے یہ خاتون دوا لینے کے لیے ضلع کے ایچ آئی وی کے علاج کے مرکز تک تنہا سفر کرتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند ہیں اور انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ان کا بچہ اس ظالم معاشرے میں ان کے بغیر زندہ رہ سکے گا۔

بیشتر متاثرین علاج کے خواہاں

حکومت نے ایچ آئی وی کے علاج کے لیے صوبے بھر میں ایچ آئی وی مراکز قائم کیے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کو صلاح و مشورہ دینے کے ساتھ ہی ان کا علاج بھی کرتے ہیں اور انہیں اینٹی ریٹرو وائرل ادویات مفت میں دیتے ہیں۔ یہ مفت دوائیں دور دراز علاقوں کے لوگوں کو چھ ماہ اور مقامی لوگوں کو تین ماہ کے لیے فراہم کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر سعدیہ خان پشاور کے پبلک سیکٹر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایچ آئی وی سینٹر کی سربراہ ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ اب صوبے میں بیشتر ایچ آئی وی پوزیٹو لوگ علاج کے لیے صحت کے مراکز سے رجوع کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''بعض مریضوں کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ انہیں فوری طور پر آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ میں داخل کیا جاتا ہے، جب کہ کچھ کا معائنہ کرنے کے بعد ادویات دی جاتی ہیں اور صلاح و مشورہ کے بعد گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومت یا عطیہ دہندگان کی جانب  فنڈز فراہم کیے جانے کی وجہ سے مفت فراہم کی جاتی ہیں۔''

ڈاکٹر نے یہ انکشاف کر کے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی کہ ایچ آئی وی کے بڑھتے ہوئے زیادہ کیسز تھیلیسیمیا کے شکار بچوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے، جس میں خون میں خرابی کی وجہ سے ہیموگلوبن کی کمی ہوتی ہے۔

انہوں نے اس بات کے لیے بھی خبردار کیا کہ ایچ آئی وی والدین سے غیر پیدائشی بچوں میں پھیلنے کے ساتھ ہی جنسی رابطے کے ذریعے بھی پھیلتا ہے، تاہم منشیات کے عادی ان افراد کو بھی اس کا خطرہ لاحق رہتا ہے، جو ضائع شدہ سرنجوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آلودہ استرے یا بلیڈ سے بھی جلد کٹنے سے انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (جمیلہ اچکزئی)

بھٹو کے شہر لاڑکانہ میں بچے بھی ایچ آئی وی کے شکار

02:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں