1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر) پر غیر اعلانیہ پابندی کیوں ہے؟

20 فروری 2024

پچھلے کئی دنوں سے پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس (ٹوئٹر) بند ہے اور یہ بندش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹوئٹر صارفین بڑی تعداد میں عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کو سامنے لا رہے تھے۔

پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی
تصویر: Monika Skolimowska/dpa/picture alliance

اس دوران ملک میں انتخابی نتائج کی درستگی  کا مطالبہ زور بھی پکڑ رہا تھا۔ یونیورسٹی آف لندن کے مقامی کیمپس میں زیر تعلیم ندا نامی قانون کی طالبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی دنوں سے پاکستان میں ٹوئٹر کی سروس ڈاؤن ہے اور صارفین نہ تو کوئی نئی پوسٹ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی شائع کر سکتے ہیں۔ '' ٹوئٹر روزمرہ کی معلومات کا اہم ذریعہ ہے، اس کے ذریعے ہم ریسرچ کرتے ہیں، ٹریفک کا اپڈیٹ لیتے ہیں اور تمام ضروری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اب ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے ہم واپس پتھر کے دور میں چلے گئے ہیں اور ہمیں آس پاس کی کوئی خبر نہیں مل رہی ہے۔‘‘

صحافی نصرت جاوید کے مطابق ٹوئٹر کے ذریعے صحافیوں کو دنیا بھر کے اخبارات میں چھپنے والے کالموں اور مضامین کے مطالعے سے آگاہی ملتی تھی اور وہ بھی اپنا کالم ٹوئٹر پر اپنے قارئین سے شئیر کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔

الیکشن کے دن انٹرنیٹ کی معطلی بنیادی حقوق پر قدغن ہے، نگہت داد

04:56

This browser does not support the video element.

غیر سیاسی تنظیم پتن کے سبراہ اور ممتاز تجزیہ کار سرور باری کہتے ہیں کہ سچی بات تو یہ ہے کہایکس (ٹوئٹر)  پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں سے انتخابی دھاندلی کے ثبوت اپ لوڈ ہو رہے تھے۔ لوگ فارم پینتالیس لوڈ کرکے اپنے اپنے حلقوں کی دھاندلی کو سامنے لا رہے تھے اور اس دھاندلی کے خلاف ٹرینڈز بن رہے تھے اور یہ سب کچھ طاقتور حلقوں کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹوئٹر پر ریٹرننگ افسر کے طور پر ڈیوٹی دینے والے سرکاری افسروں کی ٹرولنگ بھی کی جا رہی تھی۔ ان کے گھروں کے ایڈریس اور ذاتی معلومات منظر عام پر لائی جا رہی تھیں۔ کمشنر راولپنڈی کے استعفے  کے بعد اس میں تیزی آ گئی تھی اور یہ سب کچھ درست نہیں تھا۔

اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ٹوئٹر اسپیس کو استعمال کرکے سیاسی جلسے کرنے کے موقع پر بھی سماجی رابطوں کی متعدد ویب سائیٹس کو بند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں حالیہ الیکشن کے دن بھی موبائل سروس بند کر دی گئی تھی اور سماجی رابطوں کی سائیٹس کو سست کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر) کے حوالے سے متعلقہ ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن  نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں ان کے اہلکار وفاقی وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایکس (ٹوئٹر) کے امور کے ایک ماہر توصیف صبیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ٹوئٹر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے، بیچ میں کبھی کبھار یہ تھوڑی دیر کے لیے چل بھی پڑتا ہے لیکن تب بھی اس کی رفتار بہت سست ہو تی ہے۔

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

04:44

This browser does not support the video element.

ان کے خیال میں ٹوئٹر کا صرف سیاسی استعمال ہی نہیں ہو رہا بہت سی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے اشتہار کے لیے اور ماہرین تعلیم تحقیق کے لیے بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ صبیح کہتے ہیں کہ اب دور جدید میں یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ ایکس (ٹوئٹر) بند کرکے لوگوں کو بات کرنے سے روک سکیں۔ ان کے بقول، '' ابھی بہت سے لوگ پروکسی لگا کر ٹوئٹر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے ٹرینڈز اب دوسرے ملکوں میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔"

علاوہ ازیں سرور باری کہتے ہیں کہ ٹوئٹر پر نوجوان اپنے غصے کا بھی اظہار کر رہے تھے۔ حکومت نے ان کی بات سننے کی بجائے ٹوئٹر بند کر دیا اب سارا ملک افواہوں کے نرغے میں ہے۔

ملک کے ممتاز قانون دان بابر سہیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سن دو ہزار سولہ کے الیکٹرونک کرائمز ایکٹ میں حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملکی سلامتی، کسی حساس مذہبی معاملے یا امن و امان کی سنگین صورتحال میں ٹوئٹر تک رسائی کسی حد تک محدود کر سکتی ہے۔ ان کے بقول، "ملک میں ابھی ایسی کوئی صورتحال ہے ہی نہیں دوسرا ٹوئٹر کو مکمل طور پر بند کرنا درست نہیں ہے۔"

ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں بابر سہیل کا کہنا ہے، ''میں منفی پراپیگنڈے کو سپورٹ نہیں کرتا لیکن حکومت کو اختلاف رائے کو برداشت کرنا چاہیے۔ اور ٹوئٹر کو بند کرنے کی بجائے وہاں اٹھائے جانے والے سوالوں کے جوابات دینے چاہییں۔حکومت کے اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔ اور عام غیر سیاسی صارفین بھی پریشان ہو رہے ہیں۔ ‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں