پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
7 نومبر 2019
حکومت مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے دن گن رہی ہے لیکن ملکی سرمایہ کار اور کاروباری افراد احتجاج، دھرنوں اور ہڑتالوں پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔ وہ ان سرگرمیوں کے باعث معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر فکر مند ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ
پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے جلسے، جلسوس، احتجاج، ہڑتال اور توڑ پھوڑ کی روایت بہت پرانی ہے۔ کئی سیاسی ناقدین کا دعوی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی ممتاز دولتانہ کے دور میں سب سے پہلے اس کی روایت بڑی جب خواجہ نظام الدین کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ایک مذہبی اقلیت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کرایا گیا جو پر تشدد صورت بھی اختیار کر گئے تھے۔
ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں بھی ایسے مظاہرے اور احتجاج ہوئے، جن سے کاروباری سرگرمیاں بہت متاثر ہوئیں۔ بھٹو مخالف نو ستارے یا قومی اتحاد نے بھی مظاہروں، ہڑتالوں اور پر تشدد احتجاج کو فروغ دیا۔
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے
اسلام آباد میں پاکستان کی دو اپوزیشن جماعتیں اپنے ہزارہا کارکنوں کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
دھاوا بولنے والے شناخت
دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے بے قابو مظاہرین پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت کے اندر بھی داخل ہو گئے، جس کے بعد پی ٹی وی کی نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئیں۔ تاہم کچھ ہی دیر کے بعد فوج پہنچ گئی اور یہ مظاہرین پُر امن طور پر پی ٹی وی کے احاطے سے باہر آ گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ دھاوا بولنے والوں میں سے ستِّر کے قریب افراد کو شناخت کر لیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عمارتیں فوج کے حوالے
اس احتجاج کے موقع پر حکومت نے اہم سرکاری عمارتوں کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستانی فوج کو سونپ دی تھی۔ یہ فوجی مختلف مقامات پر پہرہ دیتے اور گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت پر دھاوے کے بعد نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں فوج نے اس اہم عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
تصویر: Reuters
طاقت کا استعمال، سینکڑوں افراد زخمی
اسلام آباد میں ہفتے کی شب پولیس نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ اس موقع پر ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تصویر: Reuters
پرامن دھرنے سے پرتشدد احتجاج تک
گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری یہ دھرنے 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پرتشدد واقعے میں اس وقت تبدیل ہو گئے، جب پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان واقعات میں اب تک تین افراد ہلاک جب کہ دو سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
سکیورٹی فورسز کی کارروائی
دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد میں اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھارت نفری طلب کی گئی تھی۔ مظاہرین کی جانب سے اہم عمارتوں کی جانب بڑھنے پر پولیس نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پارلیمان کی عمارت اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جب کہ ربر کی گولیاں چلائی گئیں۔
تصویر: Reuters
پنجاب پولیس کارروائی میں پیش پیش
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے دارالحکومت کی پولیس کی مدد کے لیے وزارت داخلہ نے صوبہ پنجاب کی پولیس سے بھی مدد طلب کی تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ
پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی
طاقت کے استعمال کے باوجود مظاہرین منتشر اور پھر جمع ہوتے رہے۔ سیکورٹی فورسز نے اہم عمارتوں تک جانے والے تمام راستوں کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی تحریک اور محفل سماع
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور مذہبی رہنما طاہر القادری کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں شریک ہے۔ گاہے بگاہے یہاں محفل سماع کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمان کا ’تقدس‘
پاکستانی حکومت اور فوج دونوں نے کہ رکھا تھا کہ وہ پارلیمان اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے تقدس کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے ایسی عمارتوں کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
احتجاج کے ساتھ میلہ بھی
پارلیمان کے سامنے شاہراہ دستور جسے اہم عمارات کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے، وہاں گزشتہ دو ہفتوں سے وہاں مظاہرین چلتے پھرے نظر آتے رہے اور ایک میلے کا سا سماں رہا۔
تصویر: DW/S. Raheem
عوامی تحریک کی کرین
مظاہروں کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کے لیے اس علاقے کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا، تاہم عوامی تحریک اپنے ہمراہ لاہور سے ایک کرین ساتھ لیے ہوئے تھی، جس کے ذریعے ان کنٹینروں کو بآسانی راستے سے ہٹا دیا گیا اور لوگ ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرمی بھی دھرنا بھی
احتجاجی خطابات عموماﹰ شام کے وقت ہوتے رہے، جب کہ باقی سارا دن یہ دھرنا دیے ہوئے مظاہرین موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کہیں چھتریوں کی آڑ میں نظر آتے رہے ہیں اور کہیں ٹرکوں ہی کو سائبان کیے دِکھتے رہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی میڈیا کی بازی گری
مقامی ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لے رہے ہیں، جن میں کیمروں کے حامل ڈرونز کا استعمال بھی شامل ہے، جس کے ذریعے جلسے میں مظاہرین کی تعداد اور فضائی منظر کی مدد سے عوام کو لمحے لمحے کی خبر دینے کی تگ و دو دیکھی جا سکتی ہے۔
کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں، جن کا سلسلہ کچھ برسوں کے توقف کے ساتھ دو ہزار پندرہ تک چلا۔
حالیہ برسوں میں تاجر اور کاروباری افراد اس طرح کے احتجاجوں سے اس قدر پریشان نظر آئے کہ انہوں نے لاہور کے مال روڈ پر کسی بھی قسم کے دھرنے یا احتجاج پر پابندی لگوا دی۔ تاہم اسلام آباد میں ایسا نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کے بعد اب مولانا فضل الرحمان پورے طمطراق کے ساتھ اسلام آباد کے جی سیکٹر کے پاس جلوہ گر ہیں۔
ان کے مداح ان کی موجودگی پر شادی المرگ میں مبتلا ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں یا بچوں کے گیم کھیل رہے ہیں لیکن شہر کے تاجر و کاروباری افراد اضطرابی کیفیت میں اس دھرنے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاجروں اور کاروباری طبقے کی پریشانی
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت محسن رضا کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ہماری فکر ہی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حکومت نے سو کے قریب کنٹینرز اسلام آباد اور دو سو کے قریب پنڈی میں لگائے ہوئے ہیں۔ ایک کنٹینر کو اسلام آباد سے دس دن میں کراچی پہنچنا ہوتا ہے اور اگر وہ نہ پہنچے تو فی دن پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے آڈرز بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
محسن رضا کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کو اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ ہم تنگ آگئے ہیں ان روز روز کے احتجاجوں سے۔ اس کا کوئی حل نکالیں۔‘‘
اسلام آباد سے میلوں دور پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد میں بھی اس دھرنے کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر مزمل سلطان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دھرنوں سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ ''ہماری مصنوعات کے بیرونی خریدار ہماری فیکڑیوں کا دورہ کرنے نہیں آتے اور کاروباری ملاقاتوں کے لیے دبئی بلاتے ہیں۔ ایسے احتجاج ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہروں میں جاتے ہیں، جس سے سینکڑوں کلو میڑ پر ٹریفک متاثر ہوتی ہے۔ ہماری شپ منٹ وقت پر نہیں پہنچ پاتی۔ پیداواری صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف سیاسی احتجاجوں، ہڑتالوں اور دھرنے کو بھی حکومت اور سیاست دان روک لیں تو ملک کی کئی معاشی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mirza
10 تصاویر1 | 10
دھرنوں کی قیمت
کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی نے کچھ برسوں پہلے سندھ اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ایک ہڑتال سے کم از کم صوبے کو پندرہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے سے ملک کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نقصان کا تخمینہ آٹھ سو ارب روپے ہے جب کہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ نقصان ایک ہزار ارب روپے تک تھا۔
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی خراب ہیں اور اگر اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو پھر ملکی معیشت مزید خستہ حال ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف ایم کیو ایم کے طویل دور میں پانچ سو ہڑتالیں ہوئیں۔ مختلف اندازے ہیں لیکن میرے خیال میں ایک ہڑتال سے تقریبا آٹھ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ تو پھر آپ اندازہ لگا لیں۔ اب اس دھرنے کے بھی منفی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ میڈیا کو خصوصا چاہیے کہ دھرنے کے حوالے سے کوریج ذمہ دارانہ انداز میں کرے تاکہ لوگوں میں خوف ہراس نہ پھیلے۔ خوف کاروبار کا قاتل ہے۔ اس لیے حکومت خوف کی فضا ختم کرے اور مسئلے کا کوئی حل نکالے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
دنيا ميں کہاں کہاں مظاہرے جاری ہيں؟
حکومت مخالف غم و غصہ کئی ملکوں میں پرتشدد مظاہروں میں بدل چکا ہے، جس کی وجہ مہنگائی، سماجی نا انصافياں، اداروں کی بد انتظامی اور ديگر مسائل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
پاکستان
جميعت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قيادت ميں ہزاروں افراد نومبر کے اوائل ميں اسلام آباد پہنچے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزير اعظم عمران خان مستعفی ہوں اور نئے عام انتخابات کروائے جائیں۔ حکومت نے ان کے مطالبات رد کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
عراق
عراق ميں ملک گير سطح پر احتجاج ميں نومبر کے اوائل تک ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک اور گيارہ ہزار سے زيادہ زخمی ہو چکے ہيں۔ نوجوان نسل بد عنوانی، اقتصادی بد حالی اور ہسپتالوں کے ناقص نظام کے خلاف متحرک ہے۔
تصویر: Reuters/A. al-Marjani
لبنان
لبنان ميں بد عنوانی اور اداروں ميں بد انتظامی کے خلاف لوگ متحد ہو کر باہر نکلے ہیں۔ احتجاج نے مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بظاہر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ملک گير مظاہروں کا سلسلہ اکتوبر کے وسط سے شروع ہوا اور گرچہ نومبر کے اوائل ميں ريليوں ميں کمی ديکھی گئی ليکن يہ تحريک ابھی ختم نہيں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Hussein
چلی
جنوبی امريکی ملک چلی ميں مظاہرے حکومت کی جانب سے زير زمين ٹرين يا سب وے کے کرايوں ميں اضافے سے شروع ہوئے۔ احتجاج کا دائرہ کار وسيع تر ہوتا گيا اور لوگ معاشی عدم توازن، تعليم اور صحت سے متعلق ناقص سہوليات جيسے تمام مسائل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ دارالحکومت سنتياگو ميں ستمبر کے اواخر ميں تاریخی مظاہرے ميں دس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ ہنگاموں اور مظاہروں ميں بيس افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. Garrido
ہانگ کانگ
ہانگ کانگ کے لوگ کئی مہینوں سے چين کی سياسی مداخلت کے خلاف اور جمہوری اقدار کے لیے احتجاج کر رہے ہيں۔ یہ مظاہرے انتظاميہ کی جانب سے ايک متنازعہ بل پيش کيے جانے کے بعد جون ميں شروع ہوئے۔ ہانگ کانگ ميں جاری يہ احتجاج اب باقاعدہ تحريک کی شکل اختيار کر چکا ہے اور ہر ہفتے کے اختتام پر عوام سڑکوں پر نکلتے ہيں۔ کئی واقعات ميں تشدد بھی ديکھا گيا۔