1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتیں، تحریکیں کمزور کیوں ہوئیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
1 مئی 2019

پاکستان میں یوم مئی کے موقع پر بائیں بازو کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے اجتماعات اور مظاہرے کئی حلقوں میں اس بحث کا سبب بن گئے ہیں کہ ماضی میں بائیں بازو کی طاقتور جماعتوں اور تحریکوں کو کیا ہوا اور وہ زوال پذیر کیوں ہوئیں؟

تصویر: picture alliance/ZUMA Press

ماضی میں بائیں بازو کی تحریکوں اور اشتراکی نظریات نے پاکستان کی سیاست اور معاشرت پر گہرے نقوش چھوڑے تھے لیکن اب یہ تحریکیں اور سوچ تقریباﹰ معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ملک میں سرگرم تھی بلکہ اس سے منسوب تنظیمیں بھی مزدوروں، کسانوں اور طلبا کے لیے کام کر رہی تھیں۔ پچاس کی دہائی میں پنڈی سازش کیس کے کچھ عرصے بعد کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی، جس کے بعد اشتراکی نظریات رکھنے والے سیاسی کارکنان نے نیشنل عوای پارٹی میں اپنے لیے پناہ ڈھونڈی تھی جب کہ اشتراکی نظریات سے متاثر طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان عمل میں تھی۔

ماضی کے بڑے نام

مشہور انقلابی رہنما حسن ناصر بھی اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے کام کر رہے تھے۔ انہیں ایوبی آمریت میں لاہور کے شاہی قلعے کے ٹارچر سیل میں اذیت دے کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اشتراکی نظریات کا غلبہ عوامی لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں اور کارکنان پر بھی رہا۔ اس کے علاوہ ان نظریات نے ملک کے بہترین شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور مصنفین کوبھی متاثر کیا۔ نامور انقلابی شاعر فیض احمد فیض، عوامی شاعر حبیب جالب، ترقی پسند مصنف احمد ندیم قاسمی، جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کو للکارنے والے احمد فراز سمیت ملک کی کئی نامور شخصیات اشتراکی نظریات اور بازو کی سیاسی فکر سے متاثر ہوئی تھیں۔

ایک دور میں پاکستان کی سب سے بڑی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی انہی نظریات کی حامی تھی جب کہ انیس سو ستر کے عام انتخابات جیتنے والی عوامی لیگ، پی پی پی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی کسی نہ کسی حد تک بائیں بازوکی سیاسی فکر کی حامل تھیں۔

اس تاریخی پس منظر میں کئی حلقوں میں یوم مئی کے موقع پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ آخر پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست زوال پذیر کیوں ہوئی اور یہ کہ آیا اس کا احیا اب بھی ممکن ہے؟ معروف سیاست دان حاصل بزنجو، جن کے والد میر غوث بخش بزنجو کو بھارت اور پاکستان کے بائیں بازو کے حلقوں میں بہت پذیرائی ملی تھی، کے خیال میں بائیں بازو کی کمر توڑنے میں سب سے اہم کردار جنرل ضیا کی آمریت نے کیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بائیں بازو پر جبر کے سائے تو شروع ہی سے تھے لیکن اس نے تمام مسائل کا سامنا ہمت اور بہادری سے کرنے کی کوشش کی۔ تاہم جنرل ضیاالحق کی مذہبی پالیسی نے معاشرے کو مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ ٹریڈ یونینیں بھی انہی خطوط پر منقسم ہو گئیں، جس کی وجہ سے مزدور تحریک اور بائیں بازو کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور وہ آج تک سنبھل نہیں سکیں۔‘‘

اشتراکی رہنماؤں کی اپنی غلطیاں

حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اشتراکی رہنماؤں کی اپنی بھی کچھ غلطیاں تھیں، ’’زیادہ تر اشتراکی رہنما موجودہ پاکستان کے نہیں تھے اور وہ ہجرت کر کے آئے تھے۔ کئی معاملات میں ان کو پاکستان کی دیہی اور قبائلی ثقافتوں سے مکمل طور پر واقفیت ہی نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ معروضی حالات کا صحیح معنوں میں جائزہ ہی نہ لے سکے اور انہوں نے سیاسی غلطیاں بھی کیں، جن سے بھی بائیں بازو کی سیاست کو نقصان پہنچا۔‘‘

کئی ناقدین کے خیال میں سرد جنگ کے دوران بائیں بازو کے خلاف حکومتی پروپیگنڈا بہت خطرناک اور زہریلا تھا، جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کا ایک عجیب سے تاثر بنا، جو بالاخر ان کو عوام سے دور کر دینے پر منتج ہوا۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں یہ پروپیگنڈا صرف سرد جنگ کے دور میں شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اسے برطانوی سامراج نے شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’برطانوی حکومت نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ کمیونسٹ سوچ کے حامل افراد خاندانی اقدار، مذہب اور امن پسندی پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا برکت نے یہ لکھا بھی ہے کہ برطانوی حکومت نے اشتراکیوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے مولویوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے کمیونسٹوں کے خلاف ماحول تیار کیا۔‘‘

بائیں بازو کے خلاف پروپیگنڈا

ڈاکٹر مبارک علی کے بقول قیام پاکستان کے بعد بھی یہ پروپیگنڈا جاری رہا، ’’مجلس احرار اور جماعت اسلامی نے اشتراکیوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا۔ حالت یہ تھی کہ جب میں اسلامیہ کالج کراچی میں پڑھتا تھا، تو ہمارے پرنسپل کو امریکی سفارت خانے سے یہ پیغام دیا گیا کہ اشتراکی نظریا ت والی کتابیں کالج کی لائبریری سے ہٹا دی جائیں اور وہ ہٹا بھی دی گئی تھیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی کیونکہ ساٹھ کی دہائی میں ملک کی سب سے بڑی طلبا تنظیم اشتراکیوں ہی کی تھی۔‘‘

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر آنے والی تبدیلیوں نے بھی پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کو نقصان پہنچایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں اشتراکی حکومتوں کے خاتمے نے پوری دنیا میں مایوسی کی ایک فضا قائم کی اور اس خاتمے سے مزدور تحریکوں کا بہت نقصان ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل امداد قاضی کے خیال میں بین الاقوامی صورت حال بھی ایک اہم عنصر بنا، ’’ٹیکنالوجی کے آنے سے دنیا بھر میں افرادی قوت کی کمی ہوئی، جس سے مزدور طبقے کی طاقت بھی کم ہوئی کیونکہ ان کی تعداد میں کمی ہوئی۔ لیکن پاکستان میں جب ہم لیفٹ کے زوال کی بات کرتے ہیں، تو اس میں بہت سے عوامل ہیں۔ سب سے پہلے تو جبر کا ماحول، پارٹی کے سیکرٹری جنرل سجاد ظہیر کے آنے سے پہلے ہی ان پر مقدمات بنا دیے گئے۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی منقسم ہوکر روس اور چین نواز بن گئی، کئی چین نواز بھٹو کے ساتھ مل گئے۔ بھٹو کے دور میں مزدوروں پر ظلم بند نہیں ہوا بلکہ سائٹ اور لانڈھی میں ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ نیپ پر پابندی لگائی گئی اور پھر بعد میں پی پی پی کے اشتراکی رہنماؤں کو بھی پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔‘‘

امداد قاضی کا بھی یہ ماننا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوا، ’’ضیا کی آمریت نے نہ صرف کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کا تحفہ دیا بلکہ معاشرے کو لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم بھی کر دیا۔ کراچی جو مزدور تحریک کا گڑھ ہوتا تھا، اسے لسانی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ مزدور تنظیمیں لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئیں، جس سے ان کے زوال کا عمل تیز ہو گیا تھا۔‘‘

احیاء کے امکانات

پاکستان میں رجعت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر کئی ناقدین کہتے ہیں کہ اب ملک میں لیفٹ کی سیاست کا احیا نہیں ہو سکتا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر مرکزی دھارے کی کوئی لیفٹ ونگ پارٹی نظر نہیں آتی۔ نیشنل پارٹی اشتراکی نظریات کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن ناقدین کے خیال میں وہ صرف بلوچستان تک محدود ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے جب کہ دیگر اشتراکی پارٹیاں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم ہیں۔

اس پورے منظر نامے کے باوجود کچھ سیاستدان اب بھی پر امید ہیں۔ پی پی پی کے سیکرٹر ی انفارمیشن اور سابق ایم این اے چوہدری منظور کا دعویٰ ہے کہ لیفٹ کا احیا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’کیا کسی نے دس برس پہلے سوچا تھا کہ جیریمی کوربن برطانیہ کا سب سے مقبول لیڈر بن جائے گا۔ کیا امریکا میں تصور کیا جا سکتا تھا کہ ایک اشتراکی رہنما صدارتی الیکشن کے لیے اپنی نامزدگی کی خاطر ڈیموکریٹک پارٹی میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ امریکا میں انیس سو چونتیس کے بعد یہ پہلا اشتراکی رہنما تھا، جس نے اس طرح صدارتی الیکشن لڑنے کی کوشش کی۔ تو، میرے خیال میں پاکستان میں بھی دوبارہ لیفٹ کا وقت آئے گا۔‘‘

چوہدری منظور نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی اپنی اشتراکی بنیاد کی طرف واپس جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’چیئرمین بلاول نے نہ صرف لیفٹ ونگ جماعتوں سے رابطہ رکھنے کا کہا ہے بلکہ پی پی پی خود بھی ہر محاذ پر مزدوروں اور دوسرے محنت کشوں کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ لیفٹ کا ابھار تحریکوں سےہوتا ہے، جیسے ہی مزدوروں کی کوئی بڑی تحریک چلے گی، لیفٹ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھا جائے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں