پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتیں، تحریکیں کمزور کیوں ہوئیں؟
عبدالستار، اسلام آباد
1 مئی 2019
پاکستان میں یوم مئی کے موقع پر بائیں بازو کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے اجتماعات اور مظاہرے کئی حلقوں میں اس بحث کا سبب بن گئے ہیں کہ ماضی میں بائیں بازو کی طاقتور جماعتوں اور تحریکوں کو کیا ہوا اور وہ زوال پذیر کیوں ہوئیں؟
اشتہار
ماضی میں بائیں بازو کی تحریکوں اور اشتراکی نظریات نے پاکستان کی سیاست اور معاشرت پر گہرے نقوش چھوڑے تھے لیکن اب یہ تحریکیں اور سوچ تقریباﹰ معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ملک میں سرگرم تھی بلکہ اس سے منسوب تنظیمیں بھی مزدوروں، کسانوں اور طلبا کے لیے کام کر رہی تھیں۔ پچاس کی دہائی میں پنڈی سازش کیس کے کچھ عرصے بعد کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی، جس کے بعد اشتراکی نظریات رکھنے والے سیاسی کارکنان نے نیشنل عوای پارٹی میں اپنے لیے پناہ ڈھونڈی تھی جب کہ اشتراکی نظریات سے متاثر طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان عمل میں تھی۔
انڈوں اور جوتوں کا نشانہ بننے والے چند سیاستدان
دنیا کے ایسے کئی سیاستدان ہیں، جن پر انڈوں اور جوتوں سے لے کر کلیسائی یادگار تک یعنی ہر طرح کی چیز پھینکی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں ایسی ہی چند تصاویر
تصویر: picture-alliance/AP Photo
آسٹریلیا میں انڈا
نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد انتہائی دائیں بازو نظریات کے حامل ایک آسٹریلوی سیاستدان فریزر ایننگ نے ان حملوں کی ذمہ داری ’’مسلمانوں کی امیگریشن‘‘ پر عائد کی۔ ان کے اس بیان پر کئی حلقوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ایک سترہ سالہ نوجوان نے اپنے غصے کا اظہار ایننگ کے سر پر انڈا پھوڑ کر کیا۔ اس لڑکے کو گرفتار کر کے بعد ازاں کوئی مقدمہ قائم کیے بغیر چھوڑ دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
دس نمبر کا اڑتا ہوا جوتا
2008ء میں سابق امریکی صدر جارج بش ڈبلیو بش نے عراق کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے نوری المالکی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ عراق میں امریکی مداخلت پر شدید ناراض ایک صحافی نے یہ کہتے ہوئے بش پر اپنے دونوں جوتے باری باری پھینکے، ’’یہ تمہارے لیے عراقی عوام کی جانب سےایک الوداعی بوسہ ہے، کتے‘‘۔ بش کو ان میں سے کوئی بھی جوتا نہیں لگ سکا۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ جوتا دس نمبر کا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/APTN
مادورو کے لیے آم
وینزویلا کے موجودہ صدر نکولاس مادورو کو شاید آم پسند نہیں لیکن ان کے حامیوں کو تو ضرور ہیں۔ نکولاس مادورو پر ایک سے زائد مرتبہ ایسےآم پھینکے گئے، جن پر پیغامات لکھے ہوئے تھے۔ 2015ء میں ایک خاتون نے آم کے ذریعے مادورو سے فون پر بات کرنے کی درخواست کی۔ اس آم پر خاتون نے اپنا نام اور نمبر بھی لکھا تھا۔ نکولاس مادورو نے بعد ازاں اس خاتون کو فون کر کے ان کے نئے فلیٹ پر انہیں مبارکباد بھی دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/m. Gutierrez
کلیسائی یاد گار
2009ء میں اس وقت کے اطالوی وزیر اعظم سلویو بیرلسکونی ایک عوامی تقریب میں لوگوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایک شخص نے میلان شہر کے ایک معروف کلیسا کی یادگار بیرلسکونی کی جانب پھینکی، جو ان کے چہرے پر لگی۔ بعد ازاں ذہنی مسائل کے شکار اس شخص نے کہا کہ اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے بیرلسکونی سے معافی بھی مانگی۔ بیرلسکونی چار روز تک ہسپتال میں داخل رہے۔
تصویر: AP
آدم بیزار کیک
دنیا میں بہت سے سیاستدانوں کے چہروں پر کیک یا پیسٹری ملی جا چکی ہیں اور ان میں جرمن سیاستدان بھی شامل ہیں۔ مئی 2016ء میں ایک تقریب کے دوران جرمنی میں بائیں بازو کی ڈی لِنکے پارٹی کی پارلیمانی رہنما سارہ واگن کنیچ کے چہرے پر کیک مل دیا گیا۔ یہ کیک حملہ کرنے والے شخص نے کہا کہ وہ ’آدم بیزاروں کے لیےکیک‘ نامی ایک اینٹی فاشسٹ تحریک میں شامل ہے۔ بظاہر یہ ایک چاکلیٹ کیک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
گرین پارٹی کے رہنما پر سرخ پینٹ
جرمن سیاستدان یوشکا فشر1999ء میں جرمنی کے وزیر خارجہ تھے۔ اسی سال وہ شہر بیلےفیلڈ میں اپنی ماحول دوست گرین پارٹی کے ایک اجتماع میں شریک تھے، جب ایک شخص نےان پر سرخ پینٹ پھینک دیا تھا۔ وہ شخص نیٹو کی جانب سے کوسووو میں بمباری کی حمایت کرنے پر فشر سے شدید نالاں تھا۔ پینٹ پھیکنے کے واقعے میں فشر کے کان کے پردے کو نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten
6 تصاویر1 | 6
ماضی کے بڑے نام
مشہور انقلابی رہنما حسن ناصر بھی اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے کام کر رہے تھے۔ انہیں ایوبی آمریت میں لاہور کے شاہی قلعے کے ٹارچر سیل میں اذیت دے کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اشتراکی نظریات کا غلبہ عوامی لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں اور کارکنان پر بھی رہا۔ اس کے علاوہ ان نظریات نے ملک کے بہترین شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور مصنفین کوبھی متاثر کیا۔ نامور انقلابی شاعر فیض احمد فیض، عوامی شاعر حبیب جالب، ترقی پسند مصنف احمد ندیم قاسمی، جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کو للکارنے والے احمد فراز سمیت ملک کی کئی نامور شخصیات اشتراکی نظریات اور بازو کی سیاسی فکر سے متاثر ہوئی تھیں۔
ایک دور میں پاکستان کی سب سے بڑی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی انہی نظریات کی حامی تھی جب کہ انیس سو ستر کے عام انتخابات جیتنے والی عوامی لیگ، پی پی پی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی کسی نہ کسی حد تک بائیں بازوکی سیاسی فکر کی حامل تھیں۔
اس تاریخی پس منظر میں کئی حلقوں میں یوم مئی کے موقع پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ آخر پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست زوال پذیر کیوں ہوئی اور یہ کہ آیا اس کا احیا اب بھی ممکن ہے؟ معروف سیاست دان حاصل بزنجو، جن کے والد میر غوث بخش بزنجو کو بھارت اور پاکستان کے بائیں بازو کے حلقوں میں بہت پذیرائی ملی تھی، کے خیال میں بائیں بازو کی کمر توڑنے میں سب سے اہم کردار جنرل ضیا کی آمریت نے کیا۔
سیاست اور اقتدار میں ’کرسیوں‘ کی طاقت
خواہ اقتدار کے تخت ہوں یا پھر ڈیزائنروں کے بنائے ہوئے صوفے، یہ طاقت کا مظہر ہوتے ہیں اور سیاسی کشیدگی میں بھی ان کا کردار ہوتا ہے۔ ایسی ہی چند ’طاقتور کرسیوں‘ پر ایک نظر!
تصویر: picture alliance/dpaDai Kurokawa
ایک بادشاہ کے لیے موزوں
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں ایک جمہوری لیڈر ہیں لیکن یہ کرسی، جس پر وہ بیٹھے نظر آ رہے ہیں، انہیں ایک بادشاہ کی طرح بنا دیتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرسیاں آج بھی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. Platiau
تخت کے بغیر طاقت
معمر قذافی لیبیا کے سابق رہنما تھے۔ کئی عشروں تک انہیں افریقہ کا طاقتور ترین شخص قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں اب بھی ان کے شاہانہ طرز زندگی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک منفرد تصویر ہے۔ یوگنڈا میں سن 2010ء کی افریقی یونین سمٹ کے دوران ان کی ملاقات تنزانیہ کے صدر سے ہوئی تھی لیکن انہیں وہاں صرف یہ پلاسٹک کی کرسی دی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpaDai Kurokawa
مقدس کرسی
قرون وسطیٰ میں اس کرسی پر بیٹھنے والے شخص کی طاقت شہنشاہوں اور بادشاہوں سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ آج بھی پوپ کا شمار دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ پوپ تقریبا ایک اعشاریہ تین ارب مسیحیوں کے روحانی پیشوا ہیں۔ یہ وہ کرسی ہے، جو 1994ء میں کروشیا کے دورے پر پوپ جان پال دوئم کے ہمراہ گئی تھی۔
تصویر: Roland Schmid
اُمراء کے لیے آسائش
انیسویں صدی کے آواخر میں آرام دہ اور ایڈجسٹ ایبل کرسیوں کا استعمال امریکی امراء میں فیشن بن گیا تھا۔ لیکن اس آرام کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی تھی۔ جارج ولسن کی ڈیزائن کردہ ایسی کرسیاں صرف دولت مند ہی خرید سکتے تھے۔ تب یہ کرسیاں طاقت اور اثر و رسوخ کی علامت بھی تھیں۔
تصویر: Vitra Design Museum/Jürgen Hans
سلامتی کونسل
پہلی نظر میں یہ نیلی کرسیاں عام سی نظر آتی ہیں لیکن ان کرسیوں پر دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے نمائندے بیٹھتے ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ مستقل رکن ممالک چین، روس، امریکا، فرانس اور برطانیہ کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور یہ کسی بھی قرارداد کو روک سکتے ہیں۔
تصویر: Luca Zanier
جمیز بانڈ کی کرسی
ایک خفیہ ایجنٹ کو بھی بیٹھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بارسلونا چیئر کا نام ’ایم آر نوے‘ ہے اور مشہور فلمی کردار ’زیرو زیرو سیون‘ کی پسندیدہ ترین کرسی ہے۔ ایک جرمن امریکی ڈیزائنر نے یہ آرام دہ کرسی 1929ءمیں اسپین کے کاتالان شہر میں ہونے والے ورلڈ فیئر میں جرمن پویلین کے لیے بنائی تھی۔ اس کا ڈیزائن اسّی برس بعد بھی پرکشش ہے۔
تصویر: Sony Pictures/ Metro-Goldwyn-Mayer
ایک سانحے کی علامت
یہ آرٹ ورک موزمبیق کے ڈیزائنر گونکولا مابونڈا کا تخلیق کردہ ہے۔ یہ کرسی ہتھیاروں کو ری سائیکل کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔ اس کا مقصد سن 1975ء سے 1992ء تک جاری رہنے والی ملکی خانہ جنگی کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ اس خانہ جنگی میں تقریبا نو لاکھ شہری مارے گئے تھے۔
تصویر: Vitra Design Museum/Jürgen Hans
کھیل، طاقت اور دولت
یہ تصویر ریورخ شہر میں فیفا ایگزیکٹیو کمیٹی کے میٹنگ روم کی ہے۔ اس کمیٹی کے کرپشن اسکینڈل نے فٹبال کی دنیا کا ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سن دو ہزار سولہ میں اس کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے فیفا کونسل قائم کر دی گئی تھی۔ لیکن کھیلوں کی دنیا میں سیاہ چمڑے کی بنی ان کرسیوں پر بیٹھنے والوں کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
تصویر: Luca Zanier
8 تصاویر1 | 8
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بائیں بازو پر جبر کے سائے تو شروع ہی سے تھے لیکن اس نے تمام مسائل کا سامنا ہمت اور بہادری سے کرنے کی کوشش کی۔ تاہم جنرل ضیاالحق کی مذہبی پالیسی نے معاشرے کو مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ ٹریڈ یونینیں بھی انہی خطوط پر منقسم ہو گئیں، جس کی وجہ سے مزدور تحریک اور بائیں بازو کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور وہ آج تک سنبھل نہیں سکیں۔‘‘
اشتراکی رہنماؤں کی اپنی غلطیاں
حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اشتراکی رہنماؤں کی اپنی بھی کچھ غلطیاں تھیں، ’’زیادہ تر اشتراکی رہنما موجودہ پاکستان کے نہیں تھے اور وہ ہجرت کر کے آئے تھے۔ کئی معاملات میں ان کو پاکستان کی دیہی اور قبائلی ثقافتوں سے مکمل طور پر واقفیت ہی نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ معروضی حالات کا صحیح معنوں میں جائزہ ہی نہ لے سکے اور انہوں نے سیاسی غلطیاں بھی کیں، جن سے بھی بائیں بازو کی سیاست کو نقصان پہنچا۔‘‘
کئی ناقدین کے خیال میں سرد جنگ کے دوران بائیں بازو کے خلاف حکومتی پروپیگنڈا بہت خطرناک اور زہریلا تھا، جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کا ایک عجیب سے تاثر بنا، جو بالاخر ان کو عوام سے دور کر دینے پر منتج ہوا۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں یہ پروپیگنڈا صرف سرد جنگ کے دور میں شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اسے برطانوی سامراج نے شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’برطانوی حکومت نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ کمیونسٹ سوچ کے حامل افراد خاندانی اقدار، مذہب اور امن پسندی پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا برکت نے یہ لکھا بھی ہے کہ برطانوی حکومت نے اشتراکیوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے مولویوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے کمیونسٹوں کے خلاف ماحول تیار کیا۔‘‘
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
بائیں بازو کے خلاف پروپیگنڈا
ڈاکٹر مبارک علی کے بقول قیام پاکستان کے بعد بھی یہ پروپیگنڈا جاری رہا، ’’مجلس احرار اور جماعت اسلامی نے اشتراکیوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا۔ حالت یہ تھی کہ جب میں اسلامیہ کالج کراچی میں پڑھتا تھا، تو ہمارے پرنسپل کو امریکی سفارت خانے سے یہ پیغام دیا گیا کہ اشتراکی نظریا ت والی کتابیں کالج کی لائبریری سے ہٹا دی جائیں اور وہ ہٹا بھی دی گئی تھیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی کیونکہ ساٹھ کی دہائی میں ملک کی سب سے بڑی طلبا تنظیم اشتراکیوں ہی کی تھی۔‘‘
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر آنے والی تبدیلیوں نے بھی پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کو نقصان پہنچایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں اشتراکی حکومتوں کے خاتمے نے پوری دنیا میں مایوسی کی ایک فضا قائم کی اور اس خاتمے سے مزدور تحریکوں کا بہت نقصان ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل امداد قاضی کے خیال میں بین الاقوامی صورت حال بھی ایک اہم عنصر بنا، ’’ٹیکنالوجی کے آنے سے دنیا بھر میں افرادی قوت کی کمی ہوئی، جس سے مزدور طبقے کی طاقت بھی کم ہوئی کیونکہ ان کی تعداد میں کمی ہوئی۔ لیکن پاکستان میں جب ہم لیفٹ کے زوال کی بات کرتے ہیں، تو اس میں بہت سے عوامل ہیں۔ سب سے پہلے تو جبر کا ماحول، پارٹی کے سیکرٹری جنرل سجاد ظہیر کے آنے سے پہلے ہی ان پر مقدمات بنا دیے گئے۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی منقسم ہوکر روس اور چین نواز بن گئی، کئی چین نواز بھٹو کے ساتھ مل گئے۔ بھٹو کے دور میں مزدوروں پر ظلم بند نہیں ہوا بلکہ سائٹ اور لانڈھی میں ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ نیپ پر پابندی لگائی گئی اور پھر بعد میں پی پی پی کے اشتراکی رہنماؤں کو بھی پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
امداد قاضی کا بھی یہ ماننا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوا، ’’ضیا کی آمریت نے نہ صرف کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کا تحفہ دیا بلکہ معاشرے کو لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم بھی کر دیا۔ کراچی جو مزدور تحریک کا گڑھ ہوتا تھا، اسے لسانی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ مزدور تنظیمیں لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئیں، جس سے ان کے زوال کا عمل تیز ہو گیا تھا۔‘‘
احیاء کے امکانات
پاکستان میں رجعت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر کئی ناقدین کہتے ہیں کہ اب ملک میں لیفٹ کی سیاست کا احیا نہیں ہو سکتا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر مرکزی دھارے کی کوئی لیفٹ ونگ پارٹی نظر نہیں آتی۔ نیشنل پارٹی اشتراکی نظریات کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن ناقدین کے خیال میں وہ صرف بلوچستان تک محدود ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے جب کہ دیگر اشتراکی پارٹیاں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم ہیں۔
اس پورے منظر نامے کے باوجود کچھ سیاستدان اب بھی پر امید ہیں۔ پی پی پی کے سیکرٹر ی انفارمیشن اور سابق ایم این اے چوہدری منظور کا دعویٰ ہے کہ لیفٹ کا احیا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’کیا کسی نے دس برس پہلے سوچا تھا کہ جیریمی کوربن برطانیہ کا سب سے مقبول لیڈر بن جائے گا۔ کیا امریکا میں تصور کیا جا سکتا تھا کہ ایک اشتراکی رہنما صدارتی الیکشن کے لیے اپنی نامزدگی کی خاطر ڈیموکریٹک پارٹی میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ امریکا میں انیس سو چونتیس کے بعد یہ پہلا اشتراکی رہنما تھا، جس نے اس طرح صدارتی الیکشن لڑنے کی کوشش کی۔ تو، میرے خیال میں پاکستان میں بھی دوبارہ لیفٹ کا وقت آئے گا۔‘‘
چوہدری منظور نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی اپنی اشتراکی بنیاد کی طرف واپس جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’چیئرمین بلاول نے نہ صرف لیفٹ ونگ جماعتوں سے رابطہ رکھنے کا کہا ہے بلکہ پی پی پی خود بھی ہر محاذ پر مزدوروں اور دوسرے محنت کشوں کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ لیفٹ کا ابھار تحریکوں سےہوتا ہے، جیسے ہی مزدوروں کی کوئی بڑی تحریک چلے گی، لیفٹ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھا جائے گا۔‘‘
جرمنی میں کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی یادگاریں
کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز دونوں کو بابائے سوشلزم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں یہ دونوں شخصیات متنازعہ تصور کی جاتی ہیں تاہم پھر بھی مختلف جرمن شہروں میں ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB
چین سے ایک تحفہ
کارل مارکس کی پیدائش جرمن شہر ٹریئر میں ہوئی تھی اور آئندہ برس اُن کا دو سوواں یومِ پیدائش منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر چین نے ٹریئر شہر کو مارکس کا 6.3 میٹر (بیس فٹ) سائز کا ایک مجسمہ بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ طویل بحث مباحثے کے بعد سٹی کونسل نے اس تحفے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لکڑی کے اس مجسمے (تصویر) کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اصل مجسمہ کیسا ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
مارکس ایک تاریخی شخصیت
جرمن شہر ٹریئر میں 2013ء میں کارل مارکس کی ایک سو تیس ویں برسی منائی گئی تھی۔ تب جرمن فنکار اوٹمار ہوئرل کی جانب سے ٹریئر کے تاریخی مقام پورٹا نیگرا کے سامنے مارکس کے پانچ سو مجسمے نصب کیے گئے تھے، جو پلاسٹک سے بنے ہوئے تھے۔ ان مجسموں کے ذریعے اس فنکار کا مقصد یہ تھا کہ لوگ مارکس کی تاریخی شخصیت اور اُن کی شاہکار تصنیفات پر نئے سرے سے بحث مباحثہ شروع کریں۔
تصویر: Hannelore Foerster/Getty Images
سوچ میں ڈُوبے فریڈرش اینگلز
مارکس کے ساتھ ساتھ فریڈرش اینگلز کو بھی کمیونزم کا ایک بڑا فلسفی مانا جاتا ہے۔ اُن کا تانبے سے تیار کیا گیا چار میٹر سائز کا یہ مجسمہ اُن کے آبائی جرمن شہر وُوپرٹال میں نصب ہے۔ چینی حکومت نے ایک چینی فنکار کا بنایا ہوا یہ مجسمہ 2014ء میں وُوپرٹال شہر کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اینگلز کا یہ مجسمہ سائز میں ٹریئر شہر میں کارل مارکس کے مجوزہ مجسمے سے چھوٹا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
روحانی بھائی
1848ء میں شائع ہونے والی تصنیف ’کمیونسٹ منشور‘ کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی مشترکہ کاوِش تھی۔ یہ تصویر ان دونوں کے برلن میں نصب مجسموں کی ہے۔ سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے ایماء پر 1986ء میں تیار کردہ ان مجسموں کا مقصد بابائے کمیونزم تصور کیے جانے والے ان فلسفیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ نئے سرے سے نصب کردہ ان دونوں مجسموں کا رُخ اب مشرق کی بجائے مغرب کی جانب ہے۔
تصویر: AP
مارکس کا بہت بڑا مجسمہ
کارل مارکس کا ایک بہت بڑے سائز کا یہ مجسمہ مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں ہے۔ 1953ء سے لے کر 1990ء تک اس شہر کا نام ’کارل مارکس سٹی‘ ہوا کرتا تھا۔ تیرہ میٹر سائز کا یہ مجسمہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا مسجسمہ ہے۔ اس مجسمے کے پیچھے دیوار پر چار زبانوں جرمن، انگریزی، روسی اور فرانسیسی میں ’کیمونسٹ منشور‘ کا مشہور جملہ ’دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ‘ درج ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/Schoening
بسمارک کی بجائےمارکس
مشرقی جرمن شہر فرسٹن والڈے کی اس یادگاری تختی پر کسی زمانے میں جرمن سلطنت کے پہلے چانسلر اوٹو فان بسمارک کی شبیہ ہوا کرتی تھی۔ 1945ء میں اُن کی جگہ کارل مارکس کی شبیہ نصب کر دی گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے فوراً بعد تانبے کی یہ تختی چوری ہو گئی تھی۔ 2003ء میں کافی بحث مباحثے کے بعد بالآخر سٹی کونسل نے بسمارک کی بجائے مارکس ہی کی نئی تختی لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Pleul
ایک اور متنازعہ مجسمہ
یہ مجسمہ تیس سال تک مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں یونیورسٹی کے مرکزی داخلی دروازے کے باہر نصب رہا۔ سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمن دور میں لائپسگ یونیورسٹی کارل مارکس یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ 2006ء میں تعمیر و مرمت کے دوران اس مجسمے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اسے نصب نہ کیا جائے۔ بالآخر ایک وضاحتی تحریر کے ساتھ اسے یونیورسٹی کے ژاہن الے کیمپس کے باہر نصب کر دیا گیا۔