1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارکیٹوں اور بازاروں کے اوقات کار: تاجروں کو تشویش

20 جون 2022

حکومت پاکستان کی طرف سے مارکیٹوں اور بازاروں کو جلدی بند کروانے کی وجہ سے تاجروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور انہوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک میں بے روزگاری انتہا کو پہنچ جائے گی۔

Pakistan Region Peshawar | Bürgerjournalisten
تصویر: TNN

واضح رہے کہ ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب نے حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مارکیٹوں اور بازاروں کو رات 9 بجے تک بند کروائے۔ اس سلسلے میں پہلے سندھ اور بعد میں پنجاب اور وفاقی حکومت نے بھی مارکیٹوں اور بازاروں کو رات نو بجے بند کروانا شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے علاوہ دو صوبوں اور مرکز میں رات نو بجے سے پہلے پولیس گشت کرنا شروع کردیتی ہے اور جو بازار نو بجے کے بعد بھی کھلے رہتے ہیں، انہیں بند کرواتی ہے۔

بجلی کا بحران

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگر تاجر برادری وقت پر دکانیں اور بازار بند کر دے،  تو کراچی  کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے کارخانے تیل یا درآمد شدہ کو ئلے پر چلتے ہیں، جس سے ملک کے زرمبادلہ کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کوئی دو ہفتے پہلے اپنی ایک بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں دکانیں اور مارکیٹیں دن میں ایک بجے کھلتی ہیں اور رات ایک بجے تک بند ہوتی ہیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اگر تاجر برادری صحیح کاروباری اوقات کارمتعین کرلے، تو تین ہزار پانچ سو میگاواٹ کے قریب بجلی کی بچت ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت توانائی کا شدید بحران ہے اور ملک میں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزارمیگاواٹس سے بھی زیادہ ہے۔

مارکیٹیں دن میں ایک بجے کھلتی ہیں اور رات ایک بجے تک بند ہوتی ہیںتصویر: DW/Fareedullah Khan

 شہری علاقوں میں 8 سے 10 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں 12 سے 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے علاوہ بہت سارے علاقوں میں ٹیکنیکل خرابیوں کے نام پر بھی عوام کو بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ن لیگ ذمہ دار ہے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس بحران کی ذمہ داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے، جس نے ماضی میں دھڑا دھڑ درآمد شدہ تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگائے۔ اب اس درآمد پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ ملک بجلی کی پیداواری صلاحیت رکھنے کے باوجود تیل اور کوئلے کی قیمتیوں کی وجہ سے بجلی پیدا نہیں کر سکتا۔

ایک طرف کورونا، دوسری طرف بے روزگاری

تاجروں کا خوف

حکومت کا خیال ہے کہ مارکیٹ اور بازاروں کے اوقات کار کم کر کے بجلی کی بچت کی جا سکتی ہے۔  جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو کوئلہ اور تیل کم امپورٹ کرنا پڑے گا لیکن ملک کی تاجر برادری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے انفارمل سیکٹر میں لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کام کرتے ہیں اور اگر حکومت ایسا کرتی ہے، تو پھر بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوں گے، جس سے ملک میں نہ صرف جرائم میں اضافہ ہوگا بلکہ امن وامان کا مسئلہ بھی کھڑا ہوگا۔ کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ کراچی میں 45 لاکھ سے زیادہ افراد غیر رسمی معاشی سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان افراد میں سے ایک بڑی تعداد شام چھ بجے کے بعد کام کرتی ہے۔ اگر حکومت نے جلد مارکیٹ اور بازار بند کر دیے، تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ ملک میں پہلے ہی بیروزگاروں کا ایک جم غفیر ہے اور اگر حکومت نے اس طرح بازار جلدی بند کرنا شروع کر دیے، تو بے روزگاروں کی فوج میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بازار جلدی بند کر کے بجلی بچائی جا سکتی ہےتصویر: DW/F. Khan

 ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس وقت نو بجے مارکیٹ اور کاروباری مراکز کو بند کرا رہی ہے۔ ''لیکن اس سے بجلی کی فراہمی میں تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں پولیس کی ضرور چاندی ہوگئی اور رشوت کا ایک بازار کراچی میں گرم ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے تاجر برادری بڑی پریشان ہے۔ کراچی میں روزانہ ساڑھے چار ارب کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور جلد مارکیٹ بند ہونے کی وجہ سے تقریبا ایک ارب سے زیادہ کی خریدوفروخت متاثر ہوئی ہے، جس کا مطلب ہے مہینے میں تیس ارب سے زیادہ کا نقصان۔‘‘

آئی ایم ایف پٹرول اور ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈیز کا ہی دشمن کیوں؟

ماہرین کی رائے

تاہم بجلی کی پیداوار کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے اور حکومت کو آگے بڑھ کے بازار اور مارکیٹیں 9 بجے کی بجائے شام چھ بجے بند کروانی چاہیے۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی  سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''دنیا بھر میں کاروباری مراکز سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جہاں یہ روشنی بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں سورج کی روشنی بہت وافر مقدار میں موجود ہے اور اگر تاجر مارکیٹیں اور بازار  6 بجے بند کرد یں،  تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بڑے پیمانے پر بجلی بچائی جا سکتی ہے۔‘‘

 اس ماہر کا مزید کہنا تھا کہ آٹا، اسٹیل، سیمنٹ اور لوہے کے پیداواری یونٹس سب سے زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ ''اس کے علاوہ موٹر والی تمام مشینیں بجلی بہت خرچ کرتی ہیں۔  تو حکومت کو اس حوالے سے بھی کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔‘‘

حکومت کا موقف

پاکستان مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن شاہ محمد شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ قدم بالکل مثبت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں انرجی کے بحران پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ مجبوراً کیا ہے تاکہ بجلی کی بچت کی جا سکے۔ ہم نے اس سلسلے میں تاجروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اگر تاجر برادری اس حوالے سے کوئی احتجاج کرے گی، تو ہم ان سے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں