1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بلا اجازت مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاریاں کل سے

31 اکتوبر 2023

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے لیے ملک چھوڑنے کی مہلت آج 31 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے اور ان لوگوں کی گرفتاریاں کل سے شروع ہو جائیں گی۔ حکومت کے اس اقدام سے 14 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شہری بھی متاثر ہوں گے۔

حکومت پاکستان کے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 17لاکھ افغان شہری غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم ہیں
حکومت پاکستان کے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 17لاکھ افغان شہری غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم ہیںتصویر: Fatima Nazish/DW

پاکستان کی نگران وفاقی حکومت نے غیر قانونی طور مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری کے فورا ً بعد انہیں ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے تمام صوبوں کی مقامی انتظامیہ اور پولیس فورسز کو ہدایات بھیج دی گئی ہیں۔

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی صدارت میں کل وفاقی کابینہ کی ایک میٹنگ میں اس حوالے سے اہم فیصلے لیے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ  تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے سلسلے میں 1947 کے فارن ایکٹ کے تحت تمام صوبوں کو احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

پاکستان: غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے انتظامات مکمل

انہوں نے مزید بتایا کہ تمام متعلقہ اداروں بشمول پولیس فورسز کوغیر قانونی طور مقیم تارکین وطن کو گرفتار کرلینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ معمولی جرائم میں زیر سماعت اور سزا یافتہ قیدیوں کو بھی ڈی پورٹ کردیا جائے گا لیکن سنگین جرائم میں قید غیر ملکیوں کو ڈپورٹ نہیں کیا جائے گا۔

گرفتار اور پھر ڈی پورٹ کیے جانے والے تمام غیر ملکیوں کو رکھنے کے لیے چاروں صوبوں میں خصوصی مراکز(ہولڈنگ سینٹر) قائم کیے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس اقدام سے پاکستان میں مقیم 14لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شہری متاثر ہوں گےتصویر: Fatima Nazish/DW

کون لوگ متاثر ہوں گے؟

 حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی تھی اور  اس میں کوئی توسیع نہیں کی گئی ہے۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پیرکے روز بتایا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے جس میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ "یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے ایک جامع آپریشن ہو گا۔"

'غیرقانونی غیرملکیوں کے انخلاء کی تاریخ پر سمجھوتہ نہیں '،پاکستانی وزیر داخلہ

وزیر داخلہ کے مطابق پہلے مرحلے میں ان غیر قانونی افراد کو واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس کوئی سفری دستاویز نہیں، نہ یہ ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کب اور کیسے آئے تھے۔ دوسرے مرحلے میں ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنھوں نے ریکارڈ کو تبدیل کیا اور اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرا لیا۔ اس کے بعد باقی دیگر زمرے کے افراد ہوں گے۔ اور آخر میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تمام افراد کو پاکستان سے واپس جانا ہو گا۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نےکہا کہ یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے ایک جامع آپریشن ہو گاتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

'فیصلہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت کیا گیا ہے'

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ انخلا کے منصوبے کا اطلاق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں پر ہو گا۔ منصوبے کے اطلاق میں کسی بھی ملک یا شہریت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا، "فیصلہ پاکستان کی خود مختاری اور بین الااقومی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان خراب صورتحال سے متاثرہ افراد کی سکیورٹی کا عزم کیے ہوئے ہے۔"

پاک افغان کشیدگی: دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات

اقوام متحدہ کے مطابق اس اقدام سے پاکستان میں مقیم 14لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شہری متاثر ہوں گے۔ حالانکہ حکومت پاکستان کے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 17لاکھ افغان شہری غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت نے بتایا کہ غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد 23 ستمبر سے 22اکتوبر کے درمیان تقریباً 60000افغان شہری افغانستان آچکے ہیں۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق افغانستان میں امارت اسلامی کے سپریم لیڈر نے افغان شہریوں کو پاکستان سے نکالنے کے عمل کو "تمام روایات کے خلاف" قرار دیا ہے۔

افغان مہاجرین کی پاکستان سے رضاکارانہ وطن واپسی شروع

04:04

This browser does not support the video element.

ج ا/ ص ز (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں