پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ملتوی، ’امیدواروں کے اربوں روپے ڈوب گئے‘
14 جنوری 2014پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب اور سندھ کے لیے الیکشن شیڈول کی دوسری مرتبہ منسوخی نے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، جو ان انتخابات کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان صوبوں میں الیکشن کے انعقاد کی غیر یقینی صورتحال نے امیدواروں کو بھاری مالی نقصانات سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ یاد رہے ادھر خیبر پختونخوا صوبے میں ابھی تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہی نہیں کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کامیابی سے مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ممتاز تجزیہ نگار اور سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکمرانی سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان میں بر سراقتدار سیاسی جماعتیں مقامی انتخابات چاہتی ہی نہیں ہیں۔ ان کے مسلسل تاخیری حربے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ جماعتیں ترقیاتی فنڈز کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے بقول اگر ان سیاسی جماعتوں نے ایسا ہی کرنا تھا تو اچھا ہوتا پہلے سے بتا دیتیں تاکہ لوگوں کا قیمتی وقت، اربوں روپے، اور سیاسی جوش و جذبہ برباد نہ ہوتا۔
سلمان عابد کے مطابق اب انتخابات چھ ماہ اور ایک سال سے پہلے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کے بقول حکمران سیاسی جماعتوں کی بدنیتی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ہوجانے کے بعد بھی مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام وجود میں نہیں آ سکے گا کیونکہ مقامی حکومتوں کے نئے قانون کے تحت ان اداروں کو آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس کے تحت مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات نہیں دیے گئے ہیں۔
لاہور کی یونین کونسل دو سو اکتیس ٹاون شپ سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے محمد وسیم اسلم قریشی نے بتایا کے پچھلے تین مہینوں میں پبلسٹی، کارنر میٹنگز، ٹرانسپورٹ اورانتخابی دفاتر کی مد میں انھیں لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے ہیں لیکن انتخابات ملتوی ہونے سے ان کے تمام پیسے ضائع ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول صرف پنجاب سے الیکشن کمیشن نے سینتالیس کروڑ روپے امیدواروں سے ناقابل واپسی انتخابی فیس کی صورت میں اکھٹے کیے ہیں۔
وسیم کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحتوں کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ ان کے پیسے ضائع ہو گئے ہیں کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد نہ تو وہ اسی پرانے حلقے سے امیدوار ہوں گے اور نہ ہی ان کا پرانا مشترکہ پینل ہو گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین اور وائس چئیرمین کے لیے دو لاکھ سے زائد افراد حصہ لے رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اب انتخابات ڈیڑھ سال سے پہلے نہیں ہوں گے۔
لاہور کے علاقے یونین کونسل ایک سو گیارہ شادمان سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی آمنہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے لیے ان انتخابات کا التوا ایک سانحے سے کم نہیں ہے، ’’میں نے اپنے محدود وسائل سے عورتوں کی مخصوص نشستوں کی بجائے جنرل نشست پر انتخاب لڑنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن وسائل ختم ہو گئے اور الیکشن آگے چلا گیا۔‘‘
آمنہ ملک کے مطابق یہ صورتحال ان کے لیے اقتصادی طور پر بڑا دھچکا ہے اور وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں کہ اب وہ ان انتخابات میں حصہ لے سکیں گی یا نہیں؟ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی صوبائی اسمبلیاں مقامی حکومتوں کو اپنی سوکنیں تصور کرتی ہیں، اس لیے وہ بلدیاتی انتخابات کروانے میں مخلص ہی نہیں ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ اب یہ انتخابات کب ہوں گے۔
راوی روڈ کے علاقے کریم پارک سے انتخابات میں حصہ لینے والے طارق ثنا باجوہ نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے التوا سے جہاں عوام اپنے نمائندوں کے انتخاب سے محروم ہو گئے ہیں وہاں اس فیصلے سے قوم کو اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اب صوبائی حکومتیں گلی اور محلے کے ترقیاتی کام اپنے منظور نظر ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے ہی کروائیں گی۔
ایک اشتہاری ایجنسی کے مالک راجہ فرخ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے التوا سے ہونے والے نقصان کا حتمی طور پر اندازہ لگانا آسان نہیں ہے لیکن ان کے بقول اس ضمن میں کم سے کم تخمینے کے مطابق بھی یہ نقصان پانچ سے دس ارب کے درمیان ہو سکتا ہے۔