پاکستان میں ’بلیک واٹر‘ موجود نہیں: رحمٰن ملک
21 نومبر 2009افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری طالبان شورش کے تناظر میں، بالخصوص امریکی صدر باراک اوبامہ کی نئی AFPAK پالیسی کے نتیجے میں، دونوں ملکوں میں امریکی خفیہ اداروں اور نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ پاکستان میں زیر بحث ہے۔
اس حوالے سے عراق میں بدنام ہونے والے امریکی سیکیورٹی ایجنسی ’بلیک واٹر‘ کی ’ایکسی‘ کے نام سے سرگرمیاں اور ایک اور امریکی کمپنی ’ڈائن کور‘ کے مقامی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کے معاہدے ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان اداروں نے خاص طور پر پشاور اور اسلام آباد میں اکثر رہائشی علاقوں میں سینکڑوں مکانات کرائے پر لے رکھے ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ہفتے کے روز اس حوالے سے بعض قومی اخبارات میں ’ایکسی‘ اور ’ڈائن کور‘ کی موجودگی کے خلاف جاری مہم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت کے دور میں امریکی اداروں کے ساتھ تعاون کے معاہدوں کی پاسداری موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم انہوں نے بلیک واٹر کی موجودگی سے صاف انکار کیا۔
’’ہمارے پاس ایسے شواہد نہیں ہیں جن سے یہ واضح ہوکہ ’ڈائن کور‘ کسی بلیک واٹر کے لئے کام کرتی ہے، میں پھر دہراتا ہوں کہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی تنظیم کا کوئی وجود نہیں۔ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ان کو نہیں پھیلاناچاہئے۔ ہاں ! اگر ڈائن کور پاکستان میں موجود ہے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی سرگرمیوں کو قانونی دائرہ کار کے اندر کیسے لایا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسری طرف وفاقی حکومت کے مختلف اداروں اور بالخصوص وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ میں اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت باقاعدہ دستاویزات کے تحت تقریبا ً750 امریکی حکام اور باشندے موجود ہیں۔ دونوں وزارتوں اور خفیہ اداروں کے محتاط اندازوں کے مطابق ملک میں تقریباً 2000 ایسے امریکی باشندے موجود ہیں، جن کا وزارتوں میں کوئی ریکارڈ نہیں۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان لوگوں کو واشنگٹن، کابل، نیویارک ، نئی دہلی اور لندن کے سفارتخانوں کے ذریعے براہ راست ویزے جاری کئے گئے ہیں، جس کے باعث یہ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ امریکیوں کی اس قدر بڑی تعداد بالآخر پاکستان میں کس مشن پر ہے۔
رپورٹ: امتیاز گل،اسلام آباد
ادارت: گوہر نذیر گیلانی