پاکستان میں بچوں کی اموات
3 دسمبر 2008اعداد شمار کے مطابق ایک ہزار میں سے8 پاکستانی بچے پہلی سالگرہ سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اس صورتحال پر قابوپانے کیلئے نئی صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دیگر ترقی پذیرممالک کی طرح پاکستان میں بھی میلینئم ڈویلپمنٹ گول پروگرام متعارف کروایا تھا۔
اس پروگرام کے تحت پاکستانی بچوں کی اموات میں 2015ء تک دوتہائی کمی کا ہدف مقررکیا گیاہے۔ اب تک اس ضمن میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ یہی سوال ڈوئچے ویلے نے گنگارام اسپتال لاہورکی شعبہ اطفال کی سربراہ ڈاکٹر جویریہ منان کے سامنے رکھا تواُن کا جواب تھا کہ ماضی کے مقابلے میں صورتحال میں کسی حد تک بہتری آئی ہے۔ پہلے ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 84 فی ہزارتھی جواب کم ہو کر 79 ہو گئی ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمربچوں میں یہ شرح 130 فی ہزارسے کم ہوکر99 ہوچکی ہے۔ میلینیم ڈویلپمنٹ گول کے ذریعہ پرائمری ہیلتھ کیئر کے اصولوں سے عوام کو گھر گھرجا کرآگاہی فراہم کرنا ہدف تک پہنچنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں صحت کے بجٹ میں30 فیصد سے زائد اضافہ کیا جا چکا ہے مگر فنڈزکی تقسیم کا عمل شفاف بنانے کیلئے ابھی کئی چیلنجزدرپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے 220 میں صرف7 ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے حالات پاکستان سے بھی بدتر ہیں۔ قابل ذکر امریہ ہے کہ بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت جیسے جنوبی ایشیائی ممالک بھی اس حوالے سے پاکستان سے بہترپوزیشن میں ہیں۔
ہیپاٹائٹس، ملیریا، خسرہ، غذائی قلت، ٹی بی اور پولیوجیسے امراض پراب تک قابونہ پائے جانے کی بابت جنوبی پنجاب کے علاقے مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرعمربلوچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ: ’’غربت کے باعث ہمارے ملک میں دو دو تین تین مرلے کے گھروں میں جہاں صرف تین سے چار افراد کو رہنا چاہیئے بیس سے تیس افراد رہنے پر مجبور ہیں جس کے باعث بچوں میں ہائی جینک مسائل پیدا ہوتے ہیں جو نمونیا، ٹی بی اوراسہال جیسے جان لیوا امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ خوراک کی کمی کے باعث یہ بچے پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں اورانفیکشن بڑھنے سے ان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت اور بھی کم ہوجاتی ہے۔
شہروں کی نسبت دوردرازدیہی علاقوں میں صورتحال اور بھی ابتر ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے ایک گائوں R.13/1 میں پہنچ کر ہماری گفتگو سکینہ بی بی سے ہوئی۔ لاعملی اوردقیانوسی روایات کے باعث اب تک سکینہ کے دوبچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سکینہ بی بی نے بتایا کہ اس کے بچوں میں اٹھرا کی بیماری تھی۔ وہ کبھی انکو ڈاکٹر کے پاس لے کر نہیں گئی بلکہ دم درود پر ہی بھروسہ کیا۔ سکینہ اپنی بیٹی اور بیٹے کی موت کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتی ہے۔
دیہی علاقوں کے پسماندگی اور مسا ئل اپنی جگہ سہی مگر بڑے شہروں کے بڑے اسپتالوں میں بچوں کے مرنے کا جوازکیا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر جویریہ منان کا موقف ہے کہ بذات خود شہروں میں صورتحال اتنی خراب نہیں ہے بلکہ دیہات میں مریض کواس وقت شہر لایا جاتا ہے جب وہ آخری سانسوں پرہوتا ہے۔ اس وقت تک بچے کے گردے اور دل بھی ناکارہ ہو چکا ہوتا ہے اور علاج ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان بھر میں بچگانہ امراض کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم پاکستان paediatrics ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منیر اختر سلیمی، میلینئم ترقیاتی اہداف پروگرام کے حوالے سے مایوس نہیں ہیں۔ ڈاکٹر سلیمی نے بتایا کہ اس وقت یونیسف اور دیگراداروں کے تعاون سے مختلف پروگرام جاری ہیں جن میں حاملہ خواتین کی مناسب دیکھ بھال، ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں شعورکی بیداری، دائیوں کی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2015 کے ہدف کی جانب ہماری رفتار سست ہے جسے بڑھانے کی ضرروت ہے۔
پاکستان میں غربت، غذائی قلت، شہروں اور دیہی علاقوں میں عدم مساوات،صحت کی سہولتوں کی غیرمناسب تقسیم اورآبادی کی شرح میں اضافہ نوزائیدہ اموات کے اسباب ہیں۔ 2015 کے میلینئم ترقیاتی اہداف کا حصول اگرچہ ناممکن نہیں تاہم موثر کوششوں سے ہی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔