1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری: الزامات اور رد الزام

عبدالستار، اسلام آباد
29 اپریل 2022

پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری پر کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر سیاستدانوں نے بروقت مداخلت کر کے اپنے کارکنان کی تربیت نہیں کی تو ملک میں سیاسی عدم رواداری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔

Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Karachi
تصویر: Rizwan Tabassum/Getty Images/AFP

واضح رہے ہے اٹھائیس اپریل کو  وزیراعظم شہباز شریف کے وفد میں شامل وفاقی وزیرا طلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات شاہ زین بگٹی جب  مسجد نبوی  پہنچے، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے شاہ زین بال بھی کھینچے۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب کے خلاف انتہائی نا مناسب زبان استعمال کی۔

پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں کی ٹویٹس سے یہ تاثر ابھرا کہ انہوں نے اس اقدام کی تائید کی ہے جب کہ مسلم لیگ نون  کی رہنما مریم نواز سمیت کئی سیاسی رہنماوں نے اس واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس واقعے کو اشتعال انگیز قرار دیا اور  وفاقی وزیر برائے کشمیر قمر زمان کائرہ نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ اقدار کی پاسداری کریں اور قوم کو تقسیم نہ کریں۔

قاسم سوری پر حملے کی کوشش

ابھی اس واقعہ کی گونج  ملک میں ہر طرف پھیل رہی تھی کہ اسلام آباد میں میں جمعہ کی صبح سحری کے  وقت سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری پر کچھ لوگوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی اور  برا بھلا کہا۔ قاسم سوری نے اس حوالے سے تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے۔

پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنوں میں پتھراؤتصویر: picture-alliance/dpa

تھانہ کوہسار کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' قاسم سوری نے نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں ایک ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ کچھ عناصر نے آکر گالی گلوچ شروع کی لیکن وہاں پر موجود لوگوں نے اس پر شدید ردعمل کیا اور حملہ اور بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔‘‘

 قاسم سوری نے اپنے ویڈیو بیان میں اس حملے کا ذمہ دار شہباز شریف حکومت کو ٹھہرایا ہے اور اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ سازش کے ذریعے برسراقتدار آئی ہے۔

یہ عوامی رد عمل ہے

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک عوامی رد عمل ہے ان لوگوں کے خلاف جو سازش کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے ایک رہنما محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میں یہ بتاؤں کہ یہ واقعہ مسجد نبوی کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہوا ہے، یہ عوامی ردعمل ہے، لوگ اخلاص کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ یہ چوروں اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے اور یہ ایک سازش کے تحت اقتدار میں آئے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چور کو مقدس مقامات پر چور نہیں کہا جائے گا تو کہاں کہا جائے گا۔‘‘

پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے

01:28

This browser does not support the video element.

پی ٹی آئی عدم برداشت کی ذمہ دار نہیں 

 محمد اقبال خان آفریدی نے اس الزام کو مسترد کیا کہ پی ٹی آئی سیاسی عدم برداشت کو فروغ دے رہی ہے۔ ''کیا شہباز شریف  نے زرداری کو گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کا اعلان نہیں کیا تھا؟ کیا پی پی پی نے ن لیگ پر سنگین الزامات نہیں لگائے؟ جمائما کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا گیا، وزیر اعظم کی زوجہ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کی بھی کردار کشی کی گئی تو سیاست میں عدم برداشت ہم نے نہیں دوسری جماعتوں نے پھیلائی۔‘‘

رواں برس آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی عمران حکومت مخالف ریلیتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

سیاست دان ذمہ دار ہیں

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاست دان اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا خیال ہے کہ سیاستدان خود اس جنگ کو باہر لے کر گئے ہیں تو وہ اس سیاسی لڑائی کو کیسے روک سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' تمام سیاسی جماعتوں کے دفاتر مختلف ممالک میں ہیں، اسی لیے جمائما کے خلاف مظاہرہ ہوا، نواز شریف کے خلاف لندن میں مظاہرہ ہوا اور اب یہ مسجد نبوی میں واقع رونما ہوا ہے۔‘‘

سخت رد عمل کی وجہ

 حبیب اکرم کے مطابق ماضی میں بھی حکومتوں کو ہٹایا گیا ہے جیسے کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت کو ہٹایا گیا۔ '' لیکن ان کو کرپشن کے الزامات پر ہٹایا گیا جبکہ عمران خان کے حوالے سے ان کے ماننے والوں کا یہ کہنا ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت اٹھایا گیا اور عمران خان کا بیانیہ لوگوں میں ان کے لئے ہمدردیاں پیدا کر رہا ہے اور اسی وجہ سے عمران حکومت کے خاتمے پر ردعمل بہت سخت آرہا ہے۔‘‘

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

02:38

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں