آج پاکستان سمیت دنیا بھر کے ایک سو سے زائد ممالک میں تحفظ ماحول اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر تقریباً پچیس سو سے زائد ایونٹس منعقد کیے جا رہے ہیں، کلائمیٹ اسٹرائیک اور کلائمیٹ مارچ کے نام سے۔
اشتہار
کلائمیٹ اسٹرائیک اور کلائمیٹ مارچ کا مقصد ان ممالک میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے، جہاں پر ضرر رساں گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کے باعث درجہ حرارت میں اضافے ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے یہ علاقے مختلف قسم کی قدرتی آفات کا شکا ر ہو رہے ہیں، جیسے سیلاب، خشک سالی، جنگلاتی آگ، طوفان اور موسم کا اچانک انتہائی گرم ہونا شامل ہیں۔
اسی طرح سطح سمندر کے بلند ہونے سے، جو خطرات شدید ہوتے جار رہے ہیں، ان پر بھی قابو پانا ہے تاکہ اس زمین پر جو زندگی بستی ہے، اسے پائیدار تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
آج کلائمیٹ مارچ یا کلائمیٹ اسٹرائیک کے نام سے جو مارچ منعقد کیے جا رہے ہیں، ان میں اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ سمیت غیر سرکاری تنظیموں، تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے اداروں، سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ مذہبی شخصیات سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں، اپنی مساجد، اسکولوں یا دفاتر سے باہر نکلیں اور اس مارچ کا حصہ بنیں۔
اس مارچ کا ایک مقصد چین، جاپان، امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین کے ان چند ممالک کی حکومتوں پر ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے حوالے سے زور ڈالنا بھی ہے، جن کی وجہ سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ان قدرتی مناظر کو دیکھنے میں بھی کہیں دیر نہ ہو جائے
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے سنگی مرجانی چٹانوں کے نظام سے لے کر دیو قامت گلیشیئرز جیسے مقامات کے خاتمے سے پہلے پہلے انہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سیاح ان مقامات کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
عارضی خزانہ
سالانہ بیس لاکھ افراد گریٹ بیریئر ریف (سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام) کو دیکھنے آسٹریلیا آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تقریبا ستر فیصد سیاح یونیسکو کے اس عالمی ورثے کو اس وجہ سے دیکھنے آ رہے ہیں کیوں کہ یہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو نوے فیصد کورل ختم ہو جائیں گی۔ کورل کو چھونے یا گندگی سے سیاح اس عمل کو تیز بنا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Probst
انسان کی لائی ہوئی تباہی
اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار برفانی ریچھوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث بنے؟ سن دو ہزار دس کے ایک سروے کے مطابق چرچل اور کینیڈا میں برفانی ریچھ کی سفاری سالانہ 20 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث ہے۔ زیادہ تر سیاح جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ اٹھاسی فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث انسان ہے۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
براعظم انٹارکٹیکا دیکھنے کا شوق
برفانی ریچھوں کے ساتھ ساتھ گلیشئرز پگھلنے کی تصاویر کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی نمائندہ تصاویر سمجھا جاتا ہے۔ سیاح کروز شپ کے ذریعے سمندر میں تیرتے ہوئے ایسے عظیم الجثہ برفانے تودے کو دیکھنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔ سن 1990ء میں براعظم انٹارکٹیکا کی سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ سن 2018ء میں یہ تعداد 46 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
تصویر: S. Weniger/M. Marek
سیزن کے عروج میں
تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قدرتی برف کو دیکھنے کے لیے لازمی نہیں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی جائیں۔ براعظم افریقہ میں کلیمنجارو کی برفانی پہاڑیوں کی سیاحت سے سالانہ چوالیس سے پچاس ملین ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں وہاں کی 85 فیصد برف ختم ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ برف بھی رواں صدی کے وسط تک ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schnoz
بے تاج بادشاہ
جب سن 1910ء میں امریکا کے گلئیشیر نیشنل پارک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی ایک سو سے زائد چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔ اب ایسی دو درجن سے بھی کم چوٹیاں باقی بچی ہیں۔ یہ پارک اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تحقیقی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ تیس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/Aurora/J. Miller
ایک جنت کا نقصان
مالدیپ سیاحوں کی جنت ہے۔ اس کے بارہ ہزار کورل جزیرے ہیں، جہاں اڑھائی میٹر بلند شفاف پانی کے نیچے سے سفید ریت نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں اس ملک کے صدر نے ایک نیا ایئرپورٹ اور سیاحتی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ موجودہ سے سات گنا زیادہ سیاحوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ نئے جزیرے بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کو بھی دوسری جگہ آباد کیا جانا ہے۔ ابھی یہ منصوبہ پایا تکمیل نہیں پہنچا۔
تصویر: Colourbox
نمکیں دلدل
رفتہ رفتہ صرف جزیرے ہی زیر آب نہیں آ رہے بلکہ فلوریڈ کا دلدلی ایورگلیڈز نیشنل پارک بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ایورگلیڈز کا تقریبا نصف حصہ خشک ہو چکا ہے اور اب زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تصویر: Imago/Robertharding/F. Fell
7 تصاویر1 | 7
یہ مقاصد کس طرح حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ اس کے لیے ان ممالک پر یہ دباؤ ڈالنا بھی ہے کہ یہ قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول پر توجہ دیں اور کار ساز صنعت، طیارہ سازی، بحری جہاز رانی جیسے شعبوں میں کاربن کا کم اخراج کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔
آج اسی سلسلے میں پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں کلائمیٹ مارچ منقعد کیے جا رہے ہیں۔ ان میں مباحثے، تصویری مقابلے بھی کرائے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد ہے، جونا ہونے کے برابر ہے۔ تاہم اس کے باوجود پاکستانی انتظامیہ سے کہا جار رہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے، جن سے مقامی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات پر قابو پایا جا سکے۔
’پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے‘