رحمت اللہ خان پاکستان میں ایک بینکر تھا۔ اب وہ اپنی بیوی اور بچے کے ہمراہ یونان کے خستہ حال موریا کیمپ میں مقیم ہے اور انہیں خوراک مہیا کرنے کے ليے ہر طرح کا کام کرنے کو تیار ہے۔
اشتہار
پاکستان میں بینکر، یونان میں موریا کیمپ کا مہاجر
01:17
یونانی جزیرے لیسبوس کے مہاجر کیمپوں کے مکینوں کے لیے زندگی آسان نہیں لیکن یہاں رہنے والے خاندانوں کو سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔
لیسبوس کے موریا نامی مہاجر کیمپ میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ مہاجرین رہ رہے ہیں۔ مزید جگہ نہ ہونے کے باعث اس باقاعدہ کیمپ کے ساتھ ہی ایک عارضی ’موریا 2‘ نامی کیمپ بھی وجود میں آ چکا ہے۔
یہاں بسنے والے مہاجرین کے لیے خیمے اور کمبل بھی کافی تعداد میں دستیاب نہیں اور انہیں کھانے کے حصول کے لیے بھی گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ یورپ میں بہتر زندگی کی خواہش لے کر آنے والے یہ تارکین وطن سرد ہوتے موسم سے خوفزدہ ہیں اور انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ ان کی شکایات کوئی سننے کو تیار نہیں۔
مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت لیسبوس میں مجموعی طور پر سیاسی پناہ کے گیارہ ہزار درخواست گزار رہ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کی اکثریت کا تعلق افغانستان، پاکستان اور شام سے ہے۔
تینتیس سالہ رحمت اللہ خان بھی اسی کیمپ میں اپنی بیوی اور آٹھ ماہ کے بیٹے کے ساتھ ایک عارضی خیمے میں مقیم ہے۔ رحمت اللہ پاکستان میں ایک بینک کا ملازم تھا لیکن موریا میں وہ اپنی بیوی اور بچے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی بھی نوکری کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان سے بہتر مستقبل کا خواب لیے یورپ کا رخ کرنے والے رحمت اللہ خان کی اس وقت پہلی ترجیح یہ ہے کہ وہ کسی طرح اپنی بیوی رباب مرزا اور اپنے بیٹے کو موریا کیمپ سے کسی بہتر جگہ منتقل کر پائے۔ ان کے خیمے کے ارد گرد گندگی کے باعث ان کا آٹھ ماہ کی عمر کا بچہ جلد کی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے لیکن اسے ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے بھی طویل انتظار کرنا پڑے گا۔
صرف یہ پاکستانی خاندان ہی نہیں بلکہ کیمپ میں بسنے والے ہر ایک خاندان کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ یونانی حکومت میڈیا کو کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایتھنز حکومت کا مہاجرین کو اس کیمپ میں ’محدود‘ کرنے کی پالیسی یورپی یونین کی ’مہاجرین کی آمد و رفت روکنے‘ کی پالیسی کے مطابق دکھائی دیتی ہے۔
شمشیر حیدر (ای یو بی)
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔