1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بیٹا تھیلیسیمیا کا تیزی سے پھیلتا زہر

3 جنوری 2024

پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال بلوچ اور پختون اکثریتی علاقوں میں زیادہ سنگین ہے، جہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کی جاتیں۔

پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں
پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیںتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

دنیا بھر میں تقریبا 300 ملین افراد تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، جن میں 100ملین کو ہر ماہ ایک یا دو مرتبہ خون چڑھانا  ضروری ہوتا ہے۔ 2022 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریبا 9.8 ملین افراد  تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، جو کل آبادی کا 11 فیصد بنتے ہیں۔

 اسی تحقیق کے مصنف ڈاکٹر عنایت الرحمان کے مطابق  پاکستان میں ہر برس نو ہزار بچے بیٹا تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ خاندان میں شادیاں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچوں میں تھیلیسیمیا کی جین منتقلی کے لیے ضروری ہے کہ ماں اور باپ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کیریئر ہو۔

تھیلیسمیا کیا ہے؟

آغا خان یونیورسٹی کے پیڈیاٹرک اینڈ چائلڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تھیلیسیمیا خون کی خرابی کا ایک موروثی مرض ہے، جس میں انسانی جسم خون کے سرخ خلیوں کے لیے ناکافی ہیموگلوبن  بنانے لگتا ہے۔ اس طرح جسم میں سرخ خلیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور مریض کو ہر ماہ ایک یا دو مرتبہ خون چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔

تھیلیسمیا کی اقسام

اس کی دو بڑی اقسام ایلفا اور بیٹا تھیلیسیمیا ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر کیسز بیٹا تھیلیسیمیا کے ہیں جسے میجر اور مائنر کی سب کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔

مائنر تھیلسیمیا: آغا خان یونیورسٹی کے مطابق والدین میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کیریئر ہو تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہو گا۔ یہ قسم زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔

میجر تھیلیسیمیا: والدین آپس میں قریبی رشتہ دار اور تھیلیسیمیا کیریئر ہوں تو ان کے بچے میجر تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔ یہ خطرناک مرض ہے، جس میں بچوں کو ہر ماہ ایک سے دو مرتبہ خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی اوسط عمر 10 سے 12 سال ہے۔

تھیلیسیمیا اور کزن میرج کا کیا تعلق ہے؟

سعید خان کا تعلق زیارت کی یونین کونسل  کاوس غربی سے ہے۔ وہ کوئٹہ میں رہتے ہیں اور  ان کی آمدن کا انحصار روزانہ کام ملنے یا نہ ملنے پر ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے تین بچے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہیں۔ سن 1998 میں پہلی بیٹی کی پیدائش سے شروع ہونے والی اس جنگ نے اب انہیں تھکا دیا ہے۔

کزن میرج کا کیا کریں؟

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بڑی بیٹی بخت زمینہ 23 برس کی عمر میں فوت ہوگئی تھی جبکہ دونوں بیٹے 20 سالہ عبدالماجد اور 16 سالہ نزیفت اللہ  کو ہر ماہ ایک مرتبہ کوئٹہ کے فاطمید سینٹر میں خون چڑھایا جاتا ہے۔ سعید خان ان پڑھ ہیں اور انہیں والدین سے بچوں میں تھیلیسیمیا منتقلی سے متعلق بلکل معلومات نہیں ہیں۔ 

کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فوزیہ سعید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان اس خطے میں واقع ہے، جہاں تھیلیسیمیا کا جین بہت عام ہے۔ لہذا دو کیریئرز میں شادی کے بعد ہر زچگی میں 25 فیصد امکان ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو گا۔

کیچ تھیلیسیمیا سینٹر تربت کے بانی ارشاد عارف اپنی ٹیم کے ساتھ تصویر: Saadeqa Khan/DW

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس میں 25 فیصد امکان ہوتا ہے کہ بچہ نارمل ہو جبکہ 50 فیصد امکان تھیلیسیمیا مائنر کا ہوتا ہے جو اگرچہ زیادہ  خطرناک نہیں ہے لیکن اگلی نسل میں تھیلیسیمیا کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق پہلے مرحلے میں خون کا سی پی ٹیسٹ کیا جاتا ہے اس کے بعد الیکٹرفریسز کروا کر کیریئر ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔

پنجاب میں 2016 ء میں اس حوالے سے اہم اقدامات کئے گئے تھے۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن اینڈ کنٹرول قانون 2016 ء کے مطابق اگر لڑکا اور لڑکی دونوں تھیلیسیمیا کیریئر ہوں تو یہ شادی رکوا دی جائے۔

بلوچستان میں صورتحال کتنی سنگین ہے؟

سعید خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے قصبے کاوس غربی میں تقریباً 20 فیصد خاندان ایسے ہیں، جہاں بچے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہیں۔ انہیں ہر ماہ خون چڑھانے کے لیے کوئٹہ یا مضافاتی علاقوں میں لے جایا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں اور دیگر متاثرہ خاندانوں کو تھیلیسیمیا کیریئر سے متعلق معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنا یا اپنی اہلیہ کا ٹیسٹ کروایا ہے۔

ثنا اللہ کا تعلق بلوچستان کے علاقے کیچ، تربت سے ہے۔ ان کی 12 سالہ بیٹی مریم تھیلیسیمیا کی مریض ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ابتدا میں مریم کو مہینے میں دو مرتبہ خون چڑھانا پڑتا تھا، جس کے لئے وہ اسے کراچی کے فاطمید سینٹر لے جایا کرتا تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ضلع کیچ میں 500 سے زائد بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، جن میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ ان بچوں کو  خون لگانے کے لئے کراچی یا کوئٹہ لیجانا پڑتا تھا جو متوسط طبقے کے والدین کے لئے بہت مشکل تھا۔

پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔تصویر: Saadeqa Khan/DW

2019ء میں مقامی اسکول ٹیچر ارشاد عارف نے اپنی ٹیم کے ساتھ ''کیچ تھیلیسیمیا کیئر سینٹر‘‘ قائم کیا، جو لاتعداد مسائل کے ساتھ علاقے میں تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کو مفت خون فراہم کر رہا ہے۔ البتہ تربت میں بھی مرض سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔

اس حوالے سے سابق رکن  بلوچستان اسمبلی ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی  کہتی ہیں کہ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کی صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور ہر برس ایک ہزار سے زیادہ بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچ اکثریتی علاقوں میں 8.1 فیصد اور پشتون اکثریتی علاقوں میں 5.6 فیصد بچے تھیلسیمیا میجر کا شکار ہیں۔

پری میرج تھیلسیمیا ٹیسٹ کیوں ضروری ہے؟

 ڈاکٹر یاسمین راشد 2022ء میں اپنی حکومت کے خاتمے تک تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا قانون منظور کروانے کے لئے مسلسل متحرک رہیں تھیں۔ 2021 ء میں نیچر سائنس جرنل میں شائع ہونے والے ان کے مقالے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں عام افراد تھیلیسیمیا ٹیسٹ سے خاندان والوں کی مخالفت کی وجہ سے کتراتے ہیں، جنہیں قائل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ ہمارے سامنے سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں موجود ہیں، جہاں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کو لازمی قرار دے کر اس مرض کو قابو کیا گیا ہے۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ  2016ء میں پاکستان سینیٹ میں خاندانی  قوانین میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا، جس کا مطابق ایڈز، تھیلیسیمیا، ہیپاٹائٹس اور خون سے متعلقہ دیگر  موروثی/ جینیاتی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے شادی سے قبل  خون کی سکریننگ لازمی قرار دینا تھا۔ آٹھ برس سے یہ بل متعقلہ کمیٹی کے پاس پڑا ہے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

بلوچستان ہائی کورٹ سے وابسطہ ایڈووکیٹ صائمہ خان کہتی ہیں کہ اگر اس سے متعلق کوئی قانون نافذ کر بھی دیا جائے تو بلوچستان میں اس پر عمل در آمد بہت مشکل ہو گا کیونکہ یہاں بلوچ اور پشتوں قبائل خاندان سے باہر شادیاں کرتے ہی نہیں ہیں۔ نہ ہی یہاں شادی شدہ کیریئر جوڑوں کو مزید بچوں کی پیدائش سے روکنا ممکن ہے۔

پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو بدنامی اور تفریق کا سامنا

ڈاکٹر نعمان ساہیوال میڈیکل کالج کے شعبۂ فارینزک سائنسز سے وابسطہ ہیں اور تھیلیسیمیا پر ایک تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی پرورش بہت مشکل ہے۔ مالی مسائل کے علاوہ سماجی قدغنیں اور لوگوں کے نامناسب رویے والدین کو اندر سے توڑ دیتے ہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ دورانِ تحقیق انہوں نے علی زیب تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن ساہیوال میں غریب، ان پڑھ والدین کو تین سے چار مریض بچوں کو سنبھالتے دیکھا ہے۔ ستم یہ ہے کہ انہیں اس حوالے سے زیرو معلومات بھی نہیں تھیں کہ وہ خود تھیلیسیمیا کیریئر ہیں۔

پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیںتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

ڈاکٹر نعمان سمجھتے ہیں کہ پری میرج ٹیسٹنگ کے لئے لوگوں کو ایسے والدین زیادہ بہتر قائل کر سکتے ہیں، جو اس خود دکھ سے گزرے ہوں اور سالہاسال جنگ لڑ کر بھی اپنے بچوں کو کھو دیا ہو۔

غیر سکرین شدہ خون اور تھیلیسیمیا مریضوں کی حالتِ زار

کیچ تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے بانی ارشاد عارف کہتے ہیں کہ گزشتہ تین برس میں انہوں نے بچوں کے لئے صاف خون کی فراہمی میں ان گنت مسائل کا سامنا کیا ہے۔ تعلیم کی کمی کے باعث یہاں لوگوں کو خون کا عطیہ دینے اور خون کی سکریننگ کی اہمیت سے متعلق قائل کرنا بہت مشکل ہے۔  

سن 2021 میں امریکن جرنل آف ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہائیجین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر برس دو لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ غیر سکرین شدہ خون کی منتقلی ہے۔

اس رپورٹ کے شریک محقق ڈاکٹر شیخ احمد بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو، جو خون چڑھایا جا رہا ہے، وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  کے منظور شدہ سٹینڈرڈ کے مطابق نہیں ہے۔ یہاں ہسپتالوں اور بلڈ بینکوں میں زیادہ تر عملہ تربیت یافتہ نہیں ہے نہ ہی خون کی سکریننگ کے لئے جدید آلات دستیاب ہیں۔

2022 ء میں بولان میڈیکل کالج اورسول ہسپتال کوئٹہ کے تھیلیسیمیا سینٹرز میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بہت سے علاقوں میں والدین رشتہ داروں، طلباء یا دیگر افراد سے خون خرید کر گھروں میں بچوں کو خون چڑھانے پر مجبور ہیں۔ یہ غیر سکرین شدہ خون ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے علاوہ ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن رہا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق بلوچ اور پشتون اکثریتی علاقوں میں 75 فیصد کزن میرج ہوتی ہیں، جن کے باعث 71 فیصد خاندانوں میں کوئی ایک فرد تھیلیسیمیا کا شکار ہے جبکہ ایک قابل ذکر تعداد غیر سکرین شدہ خون کی منتقلی کے باعث تھیلیسیمیا کے ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار بھی ہو چکی ہے۔

اسی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ  ایک سے 17 سال کی عمر کے تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں میں محض 22 فیصد  کو ہیپاٹائٹس بی/سی سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہے جبکہ بقیہ تعداد  ہنوز خطرے کی زد پر ہے۔

غلام دستگیر جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا سوسائٹی کے بانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تھیلیسیمیا کے خلاف جنگ میں آگاہی پھیلانا ہی واحد طریقہ ہے، جس سے پاکستان میں اسے قابو کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ''ہمیں لوگوں کو قائل کرنا ہو گا کہ صحت مند بچے خاندانی رسم  و رواج سے زیادہ اہم ہیں۔ لہذا شادی سے پہلے ٹیسٹ ضرور کروائیں اور کیریئر والدین مزید بچوں کی پیدائش کا رسک نہ لیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں