پی ٹی اے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس اتھارٹی کو سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بالخصوص ٹک ٹاک اور بیگو پر فحش اور غیر اخلاقی مواد اور اس مواد کے معاشرے اور نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، ''پی ٹی اے نے ان سوشل میڈیا کمپنیوں کو ان کے مواد کے لحاظ سے ملکی قانون کے تحت اور اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اعتدال لانے کے لیے نوٹس جاری کیے تھے، تاہم ان اداروں کا جواب تسلی بخش نہیں رہا تھا۔ اس لیے پی ٹی اے نے فوری طور پر بیگو کو بند کرنے اور ٹک ٹاک کو حتمی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ کمپنیاں اپنی سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کے ذریعے فحاشی اور غیر اخلاقی مواد پر قابو پانے کے لیے جامع طریقہ ہائے کار وضع کر سکیں۔‘‘
تاہم پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہرین اس پابندی سے اتفاق نہیں کرتے۔ میڈیا حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے اسد بیگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹک ٹاک کو نشانہ بنانا پی ٹے ای کی اخلاقیات کا درس دینے سے متعلق پالیسی کا عکاس ہے حالانکہ انٹرنیٹ پر فحاشی کو کسی بھی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں کسی بھی ایسے پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بند کر دینا غلط ہے، جس پر ہر طبقے کے افراد ویڈیوز شیئر کر سکتے ہوں۔‘‘ اسد بیگ کی رائے میں بیگو ایپ سے متعلق کچھ ایسی خبریں ضرور نشر ہوئی ہیں جو پریشان کن ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسی خبریں ہیں کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کو فحش ویڈیوز بنانے پر اکساتے ہیں لیکن اس ایپ کو بند کر دینے کے بجائے ایف آئی اے کو ان الزامات کی چھان بین کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستانی قانون کے مطابق ایسی سوشل میڈیا کمپنیاں جو سرکاری احکامات نہ مانیں، حکومت ان کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔ سائبر رائٹس کے علم بردار اسامہ خلجی کہتے ہیں، ''ایسا لگتا ہے کہ ایپس کے ذریعے کیا معلومات فراہم کی جارہی ہیں، حکومت اس بات کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔‘‘ پاکستان کے سائبر سکیورٹی قانون کے تحت پی ٹی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مواد کو فحش قرار دے دے اور اس بنیاد پر کسی بھی ایپ پر پابندی لگا دے۔ اسامہ خلجی کے مطابق، ''یہ ریاست کا کام نہیں ہے کہ وہ شہریوں کو اخلاقیات کا درس دے، خاص طور پر جب ان ایپس کے ذریعے نوجوان نسل اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر سکتی ہو اور وہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کر سکے، جو معاشرتی طبقاتی نظام سے مبرا ہے، جہاں کوئی بھی پیسہ کما سکتا ہے اور لطف اندوز بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنی والی فریحہ عزیز کہتی ہیں، ''بچوں کو تحفظ دینے کے نام پر آپ ہر کسی کو کسی بھی آن لائن پلٹ فارم سے محروم نہیں کر سکتے۔ پابندیاں عائد کرنے سے اور زیادہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘ فریحہ عزیز کی رائے میں ذہنی امراض کا معاملہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، جس پر ویسے تو بات نہیں کی جاتی لیکن ایسی ایپس کو 'ذہنی صحت‘ کا نام لے کر بند کر دیا جاتا ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ پاکستان میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس یا ایپلیکیشنز پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کچھ روز قبل پاکستان نے 'پب جی‘ نامی آن لائن گیم پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس گیم کے باعث نوجوان پر تشدد سرگرمیوں اور خود کشی کی طرف مائل ہو رہے تھے۔
#اسپیک اپ بیرو میٹر ٹیم نے چند پاکستانی ڈیجٹل ماہرین کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیجیٹل حقوق، ذرائع ابلاغ و صحافت، معاشرے اور اختراعات کے شعبوں سے ہے۔
تصویر: DW/Q. Zamanنگہت داد ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی ایگزیکيٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی مہم کے اولین کارکنوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کی آزادی، خواتین اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکیورٹی کے علاوہ خواتین کی معاشی خود مختاری جیسے معاملات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: DW/U. Wagnerسعد حمید گوگل کے کمیونٹی مینیجر ہیں اور ایک کمپنی ڈیجیٹل ایکوسسٹم کے کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ ایک کمپنی ڈیمو اینٹرپرائز کے چیف ایگزیکيٹر افسر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ نوجوان پاکستانیوں کی ڈیجیٹل مہارت کو بہتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: privatفریحہ عزیر ڈیجیٹل حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیم ’بولو بھی‘ کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے وہ سینسر شپ فری ایکسپریشن ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ یہ ایوارڈ انہيں پاکستان میں سائبر کرائم بل متعارف کرانے کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔
تصویر: Privatمیڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی کمپنی کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ترقی کے امور کے ماہر خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ میڈیا کی قوت پر یقین رکھتے ہیں اور اس باعث وہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک فعال کردار ادا کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanپاکستان کے معتبر انگریزی اخبار روزنامہ دی نیوز کے ادارتی مواد اور رائے عامہ کے شعبے کی ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک تربیت یافتہ وکیل بھی ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے کمیونیکیشن اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ ایشیا جرنل کی سات برس تک ایگزیکيٹو ایڈیٹر رہنے کے علاوہ میڈیا کے شعبے میں جنوبی ایشیا اورجنوبی ایشیائی خواتین(SAWM) کے نیٹ ورک کی شریک بانی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman’بائٹس فار آل‘ نامی ادارے کے پاکستانی دفتر کے سربراہ شہزاد احمد ہیں۔ ’بائٹس فار آل‘ انسانی حقوق کا ادارہ ہے اور یہ اطلاعات اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی برائے ترقیاتی امور، جمہوریت اور سماجی انصاف پر فوکس کرتا ہے۔ شہزاد احمد ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور کئی مختلف گروپوں کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zamanصباحت ذکریا انگریزی اخبار دی نیوز کی نائب مدیر ہیں۔ وہ نیو یارک یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ انہیں فلک صوفی اسکالر شپ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان کے ایم اے میں تھیسس کا عنوان تھا ’ پاکستان میں انفرادی عورت کو حاصل ہونے والا عروج‘۔ یہ تھیسس بلوم برگ بھارت نے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zamanماروی سرمد پاکستان میں گزشتہ پچیس برسوں سے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کے علاوہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ حقوقِ انسانی، اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور آزادئ اظہار کے لیے بھی متحرک ہیں۔ وہ پاکستانی ہیومن رائٹس کمیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی رکن ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zamanمیڈیا انڈسٹری میں شہریار پوپلزئی بطور ڈیجیٹل اسٹریٹیجسٹ کے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس نائٹ کے سابق فیلو ہونے کے علاوہ انگریزی اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanصدف خان ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نامی ادارے کی شریک بانی ہونے کے علاوہ اِس کی پروگرام ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وہ سن 2002 سے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ترقی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ شیوننگ اسکالر شپ حاصل کرنے کے بعد لندن اسکول آف اکنامکس میں زیر تعلیم رہ چکی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanپاکستان میں ڈان میڈیا گروپ کے چیف اسٹریٹیجسٹ جہاں زیب حق ہیں۔ اُن کی توجہ کا مرکز موجودہ ڈیجیٹل عہد میں ادارے کی ادارتی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ڈان ڈاٹ کام اور ڈان نیوز ٹیلی وژن میں ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُن کے تحقیقی مضامین کے موضوعات سائبر اسپیس کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا، انٹرنیٹ اور انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال سے متعلق ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanمعتبر پاکستانی تعلیمی ادارے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے مشتاق احمد گورمانی اسکول برائے ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ندا کرمانی ’سیدہ وحید جینڈر انیشی ایٹیو‘ کی فیکلٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے کئی مضامین کا موضوع جینڈر، اسلام، نسوانی تحریکیں اور مطالعہٴ برائے پاک بھارت کی شہری ترقیاتی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanرضا احمد رومی مختلف ملکی پالیسیوں کے تجزیہ کار ہونے کے علاوہ ایک صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ وہ کورنل انسٹیوٹ برائے عوامی امور کے جزوقتی استاد بھی ہیں۔ وہ سن 2015 سے لے کر 2017 تک ایتھیکا کالج، گیلیٹن اسکول اور نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے بعض کورسز پڑھا چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanلنکڈ تھنگز نامی کمپنی کی بانی اور چیف ایگزیکٹو افیسر صوفیہ حسنین ہیں۔ ان کا ادارہ ڈیجیٹل مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔ صوفیہ حسنین نے امریکا سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ بعض یورپی ممالک میں بھی ملازمت کرتی رہی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman