پاکستان میں تحفظ ماحولیات کی بھاری قیمت چکانے والے کارکنان
16 فروری 2023پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان (جی بی) کے رہائشی اور ماحولیاتی تحفظ کے ایک کارکن بابا جان اس علاقے کا ایک معروف نام بنتے جا رہے ہیں۔ وہ سب سے پہلے 2010 ء اور 2011ء کے سیلاب متاثرین کے لیے معاوضے کے حصول کے لیے مہم چلا کر عوام کی نظروں میں آئے پھر انہیں ''دہشت گردی‘‘ کے الزامات پر گرفتار کیا گیا اور وہ تقریباً ایک دہائی تک جیل میں رہے۔ انہیں آخر کار 2020ء کے آخر میں رہائی نصیب ہوئی۔
سیلاب متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے مہم چلانے والے بابا جان اور ایک درجن سے زائد دیگر افراد کو ان کے اہل خانہ کی طرف سے ایک ہفتہ طویل دھرنا دیے جانے کے بعد رہا کیا گیا۔ 45 سالہ بابا جان اب جی بی میں عوامی ورکرز پارٹی کے صدر ہیں۔
کارکنان کا 'انقلابی' تبدیلی کا مطالبہ
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت زیادہ خطرے سے دوچار ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ موسم گرما میں ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے یقینی طور پر اس خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اگرچہ جی بی آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے لیکن یہ ایک انتظامی علاقہ ہے، جسے ایک صوبے کا درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک منفرد لیکن نازک ماحولیاتی نظام کا حامل ہے اورکے ٹو سمیت دنیا کے بہت سے اونچے پہاڑوں کا مسکن بھی ہے۔
سیاہ گلیشیئر چل رہا ہے، تحفظ کیسے ممکن؟
بابا جان جیسے کارکن کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اکثر عوامی مسائل پر بولنے والوں کو خاموش کرنے اور بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بابا جان نے کہا، ''میری جدوجہد سرمایہ داری کے ذریعے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ہے، جو تباہی اور عدم مساوات کو جنم دے رہی ہے۔ ہم انقلابی سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ موجودہ نظام ہم سے ہمارے گھر چھین رہا ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ جی بی کے کوآرڈینیٹر یاسرعباس ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ بابا جان اور دیگر مظاہرین کے خلاف کیس کو ''غلط طریقے سے نمٹایا‘‘ گیا تھا اور یہ کہ جان اس سزا کے مستحق نہیں تھے۔ عباس نے کئی ایسی پائیدار مہموں کی طرف بھی اشارہ کیا، جن میں جی بی حکومت سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف برسر پیکار کارکنان میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے مستقبل میں ان کے ساتھ حکومتی نمائندوں کی ملاقات زیادہ سازگار رہے گی۔
عطا آباد جھیل ، ماحولیاتی تباہی سے خوابوں کی منزل تک
بابا جان نے 2010ء میں عطا آبادکی تباہی کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ وادی ہنزہ کے ایک گاؤں عطا آباد میں ایک بڑی لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے 20 افراد زندہ دفن ہو گئے تھے جبکہ چھ ہزار افراد بے گھر بھی ہوئے۔ اس حادثے کے نتیجے میں ایک نئی جھیل وجود میں آئی، جسے عطا آباد جھیل کا نام دیا گیا۔
اس حادثے کے صرف مہینوں بعد آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد بابا جان نے اقتدار میں موجود لوگوں پر تنقید کرنے اور سیلاب متاثرین کے لیے معاوضے کے فنڈز کی کمی کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ آج عطا آباد جھیل کی تاریک تاریخ کو تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔ یہ چھٹیاں گزارنے کا ایک پرکشش مقام بن کر ہوٹلوں سے گھرا چکا ہے۔
تاہم بابا جان نے کہا، ''اقتصادی ترقی صرف ترقی نہیں ہے بلکہ یہ بڑے ہوٹل گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے نہیں ہیں کیونکہ یہ تاجر صرف اپنے لیے منافع کما رہے ہیں اور ہمارے ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کی زندگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی۔‘‘
انہیں خدشہ ہے کہ عطا آباد جھیل کے قریب بے ہنگم ترقی مستقبل میں مزید موسمیاتی آفات کو جنم دے سکتی ہے۔ کلائمیٹ ایکشن پاکستان نامی ایک این جی او کی شریک بانی انعم راٹھور عطا آباد جھیل کو اس بات کی ایک اہم مثال کے طور پر دیکھتی ہیں کہ کمپنیاں اور سرمایہ دار جی بی میں''کمیونٹی اکنامک لفٹ‘‘ اور ''پائیدار سیاحت‘‘ کی آڑ میں ترقیاتی منصوبوں کو اپنے مفاد کےلیے استعمال کر رہے ہیں۔
موسمیاتی تحفظ کی قیمت
ماحولیاتی تحفط کے کارکن پرویز علی بھی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے موقف کی وضاحت کے لیے 2010 ء کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ سال تھا، جب ایک طوفانی سیلاب نے جی بی کےضلع غذر میں ان کے پورے گاؤں کا صفایا کر دیا۔ اس قدرتی آفت نے پرویز اور ان کے خاندان کو پناہ گزین بنا دیا۔ اس وقت ان کی عمر سات سال تھی۔
اب 19سالہ پرویز علی جانتے ہیں کہ 2022 ء کے سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے 33 ملین لوگوں کو کن چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ملک کی "فرائیڈیز فار فیوچر موومنٹ" کو مربوط کرنے اور گزشتہ نومبر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد وہ ماحولیاتی تحفظ کے کارکنوں پر دباؤ کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی بات کر سکتے ہیں۔
پرویز علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جی بی کا رہائشی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ مجھے پرائیویٹ نمبرز سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مجھے ان ماحولیاتی محافظوں سے مدد لینی پڑی جو خطرے کے شکار کارکنوں کی مدد کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگر آپ طاقتور قوتوں کے خلاف اور کمیونٹیز کے مفاد میں بات کریں تو پھر اس فعالیت کی ایک قیمت ہے۔‘‘
ماحولیاتی محافظین موسمیاتی تبدیلیوں کے متاثرین کے لیے مقامی سطح کے بجائے عالمی سطح پر تقسیم کیے جانے والے معاوضےکے معاملے پر بھی پریشان ہیں۔
ماورا باری (ش ر⁄ ع ا)