1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تنقیدی یوٹیوب چینلز، حکومتی ارادے کیا ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
2 جون 2021

صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ملک میں تنقیدی یوٹیوب چینلز ختم ہو جائیں گے اور ملک میں آزادی اظہار رائے کا تصور ناپید ہو جائے گا۔

Pakistan, Youtube auf Smartphone
تصویر: AFP/Getty Images/B. Khan

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میڈیا کی ترقی کے لیے ایک آرڈیننس لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس سے میڈیا اور خصوصی طور پر تنقیدی یوٹیوب چینلز بالکل برباد ہوجائیں گے۔ کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت اس آرڈیننس کو لا کر کیا کرنا چاہتی ہے۔

اب کسی صحافی پر حملہ نہ ہو، حامد میر کی تنبیہ

آرڈیننس اور یوٹیوب چینلز

معروف صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکیٹو کونسل کے رکن ناصر ملک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس آرڈیننس کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ بہت ڈریکونین ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جو یوٹیوب چینلز چلا رہے ہیں، اب ان کو پہلے اس کا لائسنس لینا پڑے گا اس لائسنس میں بہت ساری شرائط  ہیں اور اس کی اچھی خاصی فیس ہو گی۔ اس کے علاوہ ان کو این او سی یا نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ بھی لینا پڑے گا اور ظاہر ہے یہ سب کو پتہ ہے کہ این او سی کس طرح جاری کیا جاتا ہے اور کون جاری کرتا ہے اس کے لئے سکیورٹی کلیئرنس ضروری ہوگئی۔‘‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اسپورٹس جرنلسٹ مہک شاہد اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے ہوئےتصویر: Mehek Shahid

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے ڈرافٹ میں نظریہ پاکستان، قومی سلامتی اور دوسری اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں، جن کی کسی بھی طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر ڈھائی کروڑ کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور سزا بھی دی جا سکتی ہے۔‘‘

ٹک ٹاک آخر کتنی جانیں لے گا؟

حکومتی ارادے

معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیا الدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا بنیادی مقصد اس آرڈیننس کے ذریعے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے، جہاں کئی ایسے اینکرز بیٹھے ہوئے ہیں جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول نہیں ہے۔

پاکستان میں کریک ڈاؤن، سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی گئی

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " اس آرڈیننس پر کافی مدت سے کام ہو رہا تھا۔ مریم اورنگزیب کے دور میں بھی اسی نوعیت کا ایک آرڈیننس لانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ فواد چوہدری جب پہلے وزیر اطلاعات بنے، تو انہوں نے اس طرح کے آرڈیننس لانے کی کوشش کی تھی اور اب یہ دوبارہ آرڈیننس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ضیا الدین کے مطابق، ''ایسے حکومتی اقدامات کے بعد یہ یوٹیوب چینلز بند ہو جائیں گے اور ہر چیز ریاست کے کنٹرومیں چلی جائے گی۔‘‘

پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ادارہ پیمرا پہلے سے قائم ہے

صحافیوں کا 'معاشی قتل عام‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات صحافیوں کے معاشی قتل عام کے لئے ہیں۔ یونین کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے مجوزہ قانون کو سیاہ قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ یوٹیوب چینلز کے بند ہونے سے تنقیدی رائے رکھنے والے صحافیوں کے لئے معاشی تباہی آئے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے صحافی جن کو تنقیدی نقطہ نظر کی وجہ سے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسے صحافیوں نے یوٹیوب چینلز قائم کرکے اپنے پیشے کو زندہ رکھا، اب ایسے چینلز کے لیے کڑی شرائط لائی جارہی ہیں جس سے یہ چینلز بند ہو جائیں گے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘

فردوس عاشق اعوان کی اسسٹنٹ کمشنر کو ڈانٹ، سوشل میڈیا پر بحث

سیاسی جماعتوں کی غیرموثر آواز

صحافتی تنظیموں کا شکوہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حقیقی معنوں میں نہیں اٹھا رہی ہیں۔ ناصر ملک کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر کمزور آواز اٹھائی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، " پی ایف یو جے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، پاکستان بار کونسل اور سول سوسائٹی تو اس مسئلے پر بول رہی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اس آرڈیننس کی  پر زور انداز میں مذمت نہیں کر رہی ہیں۔ وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ اس قانون کے حق میں ووٹ نہیں دینگی لیکن ابھی تک ان کی مخالفت بہت زیادہ شدید نہیں ہے۔‘‘

پاکستان کے چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں انٹرنیٹ کیفے سوشل میڈیا تک رسائی کا بڑا ذریعہ ہیںتصویر: AP

 ’آئین کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں‘

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ آئین کے اصولوں کے مطابق فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیں کی جا سکتی لیکن یہاں تو فوج کو بدنام کیا جارہے ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد بشیر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہم کوئی آزادی اظہار رائے کو نہیں دبا رہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ تنقید تعمیری ہونی چاہیے اور آئین کی حدود میں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں