پاکستان میں توانائی کا بحران : عوام پریشان
18 مئی 2010سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اپریل میں بجلی کی یومیہ طلب و رسد میں فرق چار سے پانچ ہزار میگا واٹ کے درمیان تھا جس کے سبب شہروں میں 8 جبکہ دیہاتوں میں 16 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی تھی۔ تاہم رواں ماہ کے آغاز میں گرمی کے سبب برفانی تودوں کے پگھلنے سے دریاؤں کے پانی میں اضافہ ہوا جس کے بعد حکومت نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اطلاعات کے مطابق اس اعلان پر ایک آدھ دن عملدرآمد بھی ہوا لیکن جب ڈوئچے ویلے نے لوڈشیڈنگ کی تازہ ترین صورتحال جاننے کےلئے راولپنڈی شہر کے رہائشی عدنان سے پوچھا، تو ان کا کہنا تھا: ’’روزانہ تقریباً 6 سے 7 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ تمام حکومتی دعوے صرف ایک دن کے لئے تھے اس کے بعد لوڈشیڈنگ کا سلسلہ پھر عروج پر ہے جس سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ جب پانی آتا ہے اس وقت بجلی نہیں ہوتی اور جب بجلی آتی ہے اس وقت پانی ختم ہو چکا ہوتا ہے جس سے بہت زیادہ مشکلات ہوتی ہیں۔‘‘
اسی طرح اسلام آباد کے ایک مرکزی سیکٹر کے رہائشی اور نیم سرکاری ادارے کے ملازم زاہد عباسی نے بجلی کی بندش کا احوال سناتے ہوئے کہا: ’’ہمیں روزانہ 6گھنٹے بجلی کی بندش کا سامنا ہے اور یہ صورتحال وفاقی دارالحکومت کے مرکز G-8 سیکٹر کی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے جو ملیریا جیسی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت کو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں کر سکتے تو سرکاری عہدیداروں کو مچھر مارنے پر لگا دیں۔‘‘
ادھر حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ قومی توانائی کانفرنس میں بجلی کی بچت کے حوالے سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں اکثر کاروباری مراکز رات 9 بجے بند ہو جاتے ہیں اور حکومت اپنے اس فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کراتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن اس فیصلے کے نتیجے میں دکاندار اپنے کاروبار کی تباہی کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کے مشہور تجارتی مرکز سپر مارکیٹ میں ریڈی میڈگارمنٹس کے ایک دوکاندار نے اپنی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ لوڈشیڈنگ سے سب سے زیادہ نقصان تاجر برادری اٹھا رہی ہے کیونکہ کاروبار پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھے اب تو گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اخراجات ویسے ہی ہیں نہ تو لوگوں کی تنخواہیں بڑھی ہیں نہ ہی ٹیکس اور بلوں میں کمی آئی بلکہ دکانیں رات 8 بجے بند ہوجاتی ہیں۔‘‘
ہینڈی کرافٹس کی ایک دوکان کے مالک نے کاروباری خسارے کے بارے میں بتاتے ہوے کہا: ’’ کاروبار 75 فیصد تک تباہ جبکہ 25 فیصد رہ گیا ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دکاندار کی پہلے روز کی سیل دس ہزار تھی اب کم ہو کر دو ہزار رہ گئی ہے۔‘‘
کیا حکومت کے دکانیں جلد بند کرانے کے اقدام نے پاکستانیوں کے خریداری کے متعلق رجحان میں کوئی کمی لائی ہے۔ اس بارے میں گاہکوں اور دکانداروں نے ملے جلے ردعمل کا اظہاکیا ایک خاتون خریدار کا کہناتھا : ’’دکانوں کی جلدی بندش کے نہ تو اتنا جلدی گاہک عادی ہوئے ہیں اور نہ ہی دکاندار .... یہ عمل فی الحال سب کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ میرے خیال میں ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہی فیصلہ ہو سکتا تھا، لیکن اس کے عادی ہونے میں تھوڑ وقت لگے گا۔‘‘
راولپنڈی اسلام آباد میں زیادہ تر لوگ ملازمت پیشہ ہیں ایک آدمی ملازمت سے گھر آ کر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد جب وہ بچوں کو لے کر مارکیٹ آتے ہیں اس وقت دکانیں بند ہو جاتی ہیں۔ وہ لوگ جو شام سات یا آٹھ بجے دفتروں سے گھروں کو جاتے ہیں، جب وہ نو بجے مارکیٹ پہنچتے ہیں تو اس وقت دکانیں بند ہو چکی ہوتی ہیں، جس سے دکانداروں کو تو یقیناً نقصان ہوتا ہی ہے لیکن عوام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جوتوں کی ایک دوکان پر بطور سیلز مین کام کرنے والے جمیل احمد کے مطابق:’’ سپر مارکیٹ اور اس کے قریب رہنے والے لوگ چھ بجے تو سو کر اٹھتے ہیں جب آٹھ بجے دکانیں بند ہو جائیں گی ایسی صورت میں وہ کیا کریں گے۔‘‘
توانائی کے شعبے سے متعلق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر حکومت نے بجلی کے نئے پیداواری منصوبے شروع کرنے کے بجائے صرف بچت ہی کی سکیموں پر زور دیا تو آنے والے دنوں میں نہ صرف بجلی کا بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے بلکہ ابھی تک حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ عوام بھی نئے سرے سے احتجاج شروع کر سکتے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عاطف بلوچ