پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلیاں، امریکی کانگریس میں بریفنگ
22 مئی 2014![](https://static.dw.com/image/16611766_800.webp)
واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کے افراد کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور کرنے کے رجحان کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کی طرف سے بدھ کی رات امریکی کانگریس کے ارکان کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس طرح مذہب بدلنے کے واقعات اس ملک میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم پاکستانی لڑکیوں کو کئی طرح کی دیگر ناانصافیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ موومنٹ فار سالیڈیریٹی اینڈ پیس یا تحریک برائے یکجہتی و امن ایک ایسی تنظیم ہے جو پاکستان میں مذہبی تشدد کے خلاف فعال ہے۔ اس تنظیم کے مطابق پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے جو واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، ان میں عام طور پر غیر مسلم لڑکیوں یا نوجوان خواتین کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان سے اسلام قبول کروا کر ان کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔
اس گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی غیر مسلم پاکستانی خواتین کو اکثر جنسی زیادتیوں کے علاوہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور جب ان کے اہل خانہ کی طرف سے پولیس کو شکایت کی جاتی ہے تو اغوا کاروں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ متعلقہ لڑکی یا خاتون نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔
اس پاکستانی غیر سرکاری تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن محتاط اندازوں کے مطابق اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے پاکستان میں ہر سال 100 اور 700 کے درمیان مسیحی لڑکیاں اور کم از کم 300 تک ہندو لڑکیاں مذہب کی جبری تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں۔
اس موومنٹ کی ایک عہدیدار عنبر جمیل نے بدھ کی رات واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان پاکستان میں تمام شہریوں کی مذہبی آزادی اور عوامی تحفظ کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اس تنظیم نے پاکستانی عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانونی حوالے سے ’مذہب کی جبری تبدیلی‘ کی تعریف کرے اور اس قانونی تعریف کو تعزیرات پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔
بریفنگ کے دوران ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کا سبب بننے والے اغوا کار کئی طرح کے قوانین کی خلاف ورزیوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ مسلم اکثریتی پاکستان میں کسی بھی غیر مسلم جوڑے کی شادی کو اس وقت بالعموم غیر مؤثر سمجھا جاتا ہے جب شوہر یا بیوی میں سے کوئی شادی کے بعد اسلام قبول کر لے۔
پاکستان کی مسیحی برادری کے ایک رہنما پیٹر جیکب نے امریکی کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے اسلام آباد حکومت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے زیادہ بہتر اور مؤثر اقدامات کرے۔ پیٹر جیکب نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لیے علیحدہ انتخابی نظام کے خاتمے سمیت سرکاری سطح پر جو بھی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں یا جو بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کے باوجود اقلیتوں کے حوالے سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تشدد بظاہر ایک ’خود بخود شروع ہو جانے والا عمل‘ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران مذہبی خونریزی میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2013ء میں پورے پاکستان میں باقاعدہ ٹارگٹ بنا کر 400 شیعہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔