پاکستان میں جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
28 فروری 2019ان تنظیموں کے مطابق بھارتی ایئر فورس کے ونگ کمانڈر کی رہائی کا فیصلہ ایک طرف اگر اسلام آباد حکومت کا ایک اچھا اقدام ہو گا تو دوسری طرف ملک کے اندر حکومت کو ان جہادی تنظیموں کی روک تھام کے لیے بھی عملی اقدامات کرنا چاہییں، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو ایک ایسا مجموعہ دستاویزات یا ’ڈوسیئر‘ بھی دیا ہے، جس کے بارے میں سیاست دانوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرتا ہے، تو اسلام آباد کو ہر ایسی تنظیم کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے، جو پلوامہ حملے میں ملوث رہی ہو۔
وزیر اعظم عمران خان نے ونگ کمانڈر ابھینندن کمار کی رہائی کا اعلان جمعرات اٹھائیس فروری کو اسلام آباد میں ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ایک مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کیا اور کہا کہ اس بھارتی پائلٹ کو کل جمعہ یکم مارچ کو رہا کر دیا جائے گا۔ امکان ہے کہ اس بھارتی پائلٹ کو واہگہ باڈر کے راستے واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے گا۔
اس اعلان کو سراہتے ہوئے پاکستانی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اس فیصلے کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو جائے کہ پلوامہ حملے میں کوئی پاکستانی تنظیم ملوث ہے، تو اس کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر بدنام ہوتا ہے اور ہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں یہ شکایت رہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے باوجود ایسی تنظیموں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے۔‘‘
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کا سخت مخالف ہے ۔ اس جماعت نے حال ہی میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے بھی کیے تھے۔ اس جماعت پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ جہادی تنظیموں کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن پارٹی کے ایک معروف رہنما مولانا جلال الدین نے بھی پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم پی ٹی آئی کے خلاف ہیں لیکن ہم ہر اس اقدام کو سراہیں گے، جو امن کے لیے ہو۔ اگر بھارت ثبوت دے، تو ہمیں ہر اس تنظیم کے خلاف اقدامات کرنا چاہییں، جس نے ایسا کوئی کام کیا ہو۔ حالانکہ خود کش حملہ آور مقامی کشمیری تھا، لیکن پھر بھی اگر کسی پاکستانی تنظیم کا اس میں ہاتھ تھا، اور اگر بھارت ٹھوس ثبوت فراہم کرتا ہے، تو پاکستان کو کارروائی کرنا ہو گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی عمران خان کی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حکومتی فیصلے کو سراہتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس تنظیم کے ایک عہدیدار اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت بھی اس کا مثبت جواب دے گا۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان غیر ریاستی عناصر کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرے، جنہوں نے نہ صرف پڑوسی ممالک کو نقصان پہنچایا بلکہ ہمارے بھی ہزاروں شہریوں کی جان لی۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بین الاقوامی برادری ہماری اس معاشی بحران سے نکلنے کی کوششوں میں مدد بھی نہیں کرے گی، جس کا ہمیں اس وقت سامنا ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور جہادی تنظیموں کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے، جو اب بھی ہے اور ریاستی ادارے کسی بھی صورت اس تعلق کو توڑنا نہیں چاہتے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں پاکستان بھار ت کی طرف سے دیے گئے ڈوسیئر پر کوئی کام نہیں کرے گا۔
بھارتی ڈوسیئر پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ممبئی اور پھر پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھی نئی دہلی نے ڈوسیئر دیا تھا۔ کیا اس پر کوئی ایکشن لیا گیا تھا؟ اس ڈوسیئر پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا کیونکہ جیش محمد آئی ایس آئی کا بہت پرانا اثاثہ ہے اور ایسی تنظیموں سے ریاستی اداروں کے تعلقا ت عمران خان کے ساتھ روابط سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ تو، میرے خیال میں تو کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ شاید کچھ مصنوعی اقداما ت کیے جائیں۔‘‘
بین الاقوامی برادری کا پاکستان پر ایسے اقدامات کے حوالے سے دباؤ بہت زیادہ ہے، کیا اسلام آباد اس دباؤ کو نظر انداز کر سکے گا؟ اس سوال کے جواب میں عائشہ صدیقہ نے کہا، ’’فواد چوہدری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بہاولپور میں جیشِ محمد کا مرکز نہیں بلکہ ایک مسجد ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں اتنا بڑا مرکز صرف ایک مسجد نظر آتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ اس تنظیم پر پابندی تو برسوں سے ہے، تو پھر اس نے اتنا بڑا مرکز کیسے تعمیر کر لیا؟ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا اور پاکستان اس بیرونی دباؤ کو نظر انداز کر دے گا۔‘‘