پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کرنا ’بدنامی‘ کا باعث کیوں؟
9 اپریل 2023
خواتین نمائندوں کا کہنا ہے کہ اکثر خاندانوں میں زیادہ لڑکے پیدا کرنے کی خواہش کثرت اولاد کا سبب بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان 2092ء میں 404.68 ملین افراد کے ساتھ اپنی آبادی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
اشتہار
پاکستان کے صوبہبلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے رہائشی 50 سالہ سردار جان محمد خلجی کواپنے ہاں کثرت اولاد پر فخر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنوری میں اپنے ہاں ساٹھویں بچے کا استقبال کیا تھا۔ خلجی کا کہنا ہے کہ وہ تین بیویوں سے 60 بچوں کے باپ بنے ہیں لیکن انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے مزید تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
مستان خان وزیر چوتھی شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہیںتصویر: DW
افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے رہائشی مستان خان وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے 22 بچے ہیں، جن میں سے کچھ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس 70 سالہ شخص کی بھی تین بیویاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی جوان محسوس کرتے ہیں اور چوتھی بیوی کی خواہش رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری تمام بیویاں ایک ہی قبیلے سے ہیں اور یہ کہ ان کی بیویوں میں سے ایک ان کے چھوٹے بھائی کی بیوہ ہیں، جو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوا تھا۔
مستان خان وزیر کا کہنا ہے، ''میں مزید بچے پیدا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ کافروں اور دشمنوں سے لڑ سکتے ہیں۔ مجھے ایک درجن سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر فخر ہے۔'' ان کے بقول وہ اپنی تینوں بیویوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ''میری بیویوں میں سے ایک شمالی وزیرستان، دوسری ڈیرہ اسماعیل خان اور تیسری راولپنڈی میں ہے۔ اگر میں ان کو ساتھ رکھوں گا تو جھگڑیں گی۔''
وزیر کا کہنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی ٹیموں نے کبھی ان کے علاقے کا دورہ نہیں کیا: ''اگر وہ آ بھی جاتے تو کوئی ان کی بات نہ مانتا۔ وہ ہمیں مزید بچے پیدا کرنے سے نہیں روک سکتے، یہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔''
ورلڈ بینک کے مطابق سن2021 میں تقریباً 231.4 ملین افراد کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا۔ سن 2022 میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے پاکستان میں عورتوں کی بچے پیدا کرنے کی فی کس شرح تقریباً 3.3 بتائی تھی۔ یہ قدامت پسند اسلامی ملک دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والے ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر ایک ہزار افراد میں 22 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والے ممالک میں ہوتا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP
ورلڈ پاپولیشن کے جائزے کا تخمینہ ہے کہ 2092ء میں 404.68 ملین افراد کے ساتھ پاکستان اپنی آبادی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان کیوں ہے؟
بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کا خیال ہے کہ زیادہ لڑکے پیدا کرنے کی خواہش پاکستانیوں کو کثرت اولاد کی تحریک دینے والے عوامل میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قبائلی معاشرے میں لڑکوں کا ہونا حیثیت اور طاقت کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ بیٹوں والے خاندان زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
لہڑی نے کہا، ''مرد اس وقت تک بچے پیدا کرتے رہیں گے جب تک کہ ان کے ہاں لڑکے پیدا نہ ہوں۔ اگر ان کی پہلی اور دوسری بیویوں سے بیٹے نہیں ہوتے ہیں تو کچھ لوگ دو یا تین بار شادی کرتے ہیں۔''
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
12 تصاویر1 | 12
ایک اور قانون ساز کشور زہرہ کہتی ہیں کہ کچھ خاندانوں کا خیال ہے کہ زیادہ لڑکے پیدا کرنے سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے، ''یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ بچے ہیں۔ یہ لڑکوں کو فیکٹریوں یا ورکشاپوں میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور لڑکیاں لوگوں کے گھروں پرکام کرتی ہیں۔''
پنجاب میں نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن کی مرکزی صدر رخسانہ انور کا خیال ہے کہ مذہبی علماء خاندانی منصوبہ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زیادہ تر خواتین ہیلتھ ورکرز کو مذہبی دلائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ علماء خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں اور اسے اسلام مخالف قرار دیتے ہیں۔
تاہم ملک کی ایک بڑی سیاسی ومذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام اس بات کی تردید کرتی ہے کہ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو روکنے کے ذمہ دار علماء ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما محمد جلال الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی پارٹی لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر مجبور کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''علماء خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت نہیں کرتے۔ جو بھی ایسا کرنا چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نہ بتایا جائے اور اگر وہ وہ ایسا نہیں چاہتے تو انہیں مجبور نہ کیا جائے۔''
پاکستانی خواتین کو زچگی کے دوران ناکافی سہولیات کی وجہ سے اکثر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
آبادی کے بوجھ تلے دبی خواتین
معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کے محکمہ آبادی سمیت سرکاری محکموں کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کی اطلاعات ہیں۔
نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے محمد انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت خواتین ہیلتھ ورکرز کو مانع حمل ادویات فراہم نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''متعلقہ سرکاری محکموں کے پاس گولیاں، انجیکشن اور کافی کنڈوم نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔''
ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں زچگی سے متعلق اموات کو روکنے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انور نے مزید کہا، ''ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسی اموات کو روکنا ضروری نہیں ہے لیکن آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔''
کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر صحت اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ٹیپو سلطان کا خیال ہے کہ حکام خاندانی منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، ''اب ایسے مفادات ہیں جن کا تقاضہ ہے کہ آبادی میں اضافے کا مسئلہ یہیں رہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مراعات حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔''
پاکستان میں خواتین کو بچے پیدا کرنے اور بڑے خاندانوں کی پرورش کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سن 2018ء کے پاکستان نیوٹریشن سروے کا حوالہ دیتے ہوئے، یونیسیف نے پاکستان میٹرنل نیوٹریشن سٹریٹیجی 2022-27 کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تولیدی عمر کی 14.4فیصد خواتین وزن کی کمی، 24 فیصد زائد وزن، 13.8فیصد موٹاپے، 41.7 فیصد خون کی کمی اور چار فیصد وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔
ٹیپوسلطان نے کہا، ''میں نے انتہائی کمزور خواتین کو اکثر حمل ٹھہرتے دیکھا ہے۔ کمزور خواتین کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں، جس سے غذائی قلت کے شکار بچوں کی فوج میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نشوونما بھی رک جاتی ہے۔''