پاکستان میں داعش کی موجودگی کا پہلی بار اعتراف
1 ستمبر 2016آپریشن ضرب عضب پر ذرائع ابلاغ کو راولپنڈی میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا داعش پاکستان میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث یہ دہشت گرد تنظیم کوئی کامیابی نہیں حاصل کر سکی۔انہوں نے بتایا کہ اے آر وائی، دنیا نیوز اور دن ٹی وی پر جو کریکر حملے ہوئے اس میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی جبکہ معروف شخصیات کو ہدف بنانے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا تھا۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے بنیادی طور پر بیس سے پچیس افراد تھے لیکن اس تنظیم کے مدد گاروں سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا گیا، جس میں پچیس غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ داعش سے تعلق رکھنے والے حافظ عمر، علی رحمان ٹونا اور عبدالسلام سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں جب کہ کراچی میں بوہری کمیونٹی پر حملے میں بھی اس تنظیم کا ہاتھ تھا۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ داعش نے مقامی جرائم پیشہ گروہوں کو بھرتی کیا۔ وال چاکنگ کے لیے یہ تنظیم ایک ہزار روپے دیا کرتی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے تاہم ان کی افغانستان کے مشرقی صوبوں میں موجودگی ایک چیلنج ہے کیونکہ ان صوبوں کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔
جنرل باجوہ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کام نہیں کر رہا، ’’ضربِ عضب میں حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان سمیت تمام طرح کے دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ اچھے یا برے طالبان کا کوئی تصور نہیں ۔‘‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے سرکاری سطح پر نہ صرف داعش کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے بلکہ اِس کو ختم کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ دو سال پہلے پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اس دہشت گرد گروپ کی پاکستان میں موجودگی سے انکاری تھے۔ اس انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ اعتراف جان کیری کے دورہء بھارت اور امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ اتنے عرصے حالتِ انکار میں کیوں رہے۔ داعش کی نظریاتی حمایت پاکستان میں موجو د ہے اور یہ دہشت گرد تنظیم افغانستان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ہمارے ہاں سلفی، اہلحدیث اور سپاہ صحابہ جیسی کئی تنظیمیں ہیں جو داعش سے نظریاتی طور پر قریب ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو اس مسئلے کو مل کر حل کرنا چاہیے۔ دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس پر اشتراک کے بغیر کامیابی آسان نہیں ہے۔‘‘
پولیس کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’ملک میں پارا چنار، ہنگو، کوہاٹ، اورکزئی، شکارپور، کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ، قلات، مستونگ، بھکر، جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان، باغ، ڈیرہ غازی خان اور لیہ سمیت کئی علاقے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے حساس مقامات ہیں۔ ان علاقوں سمیت ملک کے کئی اور مقامات پر بھی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ لہذا داعش کے مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘‘
واضح رہے اسلام آباد میں لال مسجد سے منسلک ایک مدرسے کی طالبات نے داعش کی علی اعلان حمایت کی تھی اور اپنے ایک وڈیو پیغام میں انہیں پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کے لیے بھی کہا تھا۔ اس واقعے کے بعد لال مسجد کے خلاف ایکشن نہ لینے پر حکومت کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن سول سوسائٹی کا شکوہ ہے کہ ان تمام واقعات کے باجود حکومت نے لال مسجد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بلوچستان فرقہ وارانہ دہشت گردی کا مرکز رہا ہے۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی بشیر بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلوچستان میں کئی ایسے گروپ ہیں جو داعش سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں اور اگر ملک میں داعش سے وفاداری کا دم بھرنے والا کوئی گروہ نمودار ہوا تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ یہ تنظیمیں اُس سے الحاق کر لیں یا اس میں شمولیت اختیار کر لیں۔‘‘
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ایرانی جند اللہ داعش کا ساتھ دے سکتی ہے: ’’ایرانی جند اللہ نے اپنا نام مذہبی رکھا ہے لیکن ان کا مقصد قومی ہے۔ وہ قوم پرست لوگ ہیں اور داعش جیسی فرقہ وارانہ تنظیموں کی حمایت نہیں کریں گے۔ ہاں البتہ سپاہ صحابہ اور جے یو آئی ایف کے کچھ عناصر داعش جیسی تنظیموں کی حمایت کر سکتے ہیں۔‘‘