1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں دہشت گردوں کی فنڈنگ نہیں کر رہے، سعودی عرب

مقبول ملک10 فروری 2015

پاکستان کے ایک وفاقی وزیر کی طرف سے سعودی عرب پر مسلم دنیا میں اپنے مالی عطیات کی مدد سے عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگائے جانے کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی فنڈنگ نہیں کر رہا۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیزتصویر: Reuters/Saudi Press Agency

اسلام آباد سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی دارالحکومت میں قائم سعودی سفارت خانے کے منگل دس فروری کو جاری کردہ ایک بیان میں ان الزامات کی تردید کی گئی ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سنی عسکریت پسندوں کو مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔

بیان کے مطابق سعودی عرب اس بارے میں ’شعوری طور پر بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے کہ اس کی طرف سے انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مہیا کردہ امداد کسی بھی طرح انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں میں نہ پہنچے‘۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کرنے والے طالبان عسکریت پسندتصویر: Reuters/Pakistan Taliban

ڈی پی اے کے مطابق سعودی سفارت خانے کی طرف سے عوامی سطح پر جاری کیا جانے والا یہ غیر معمولی بیان اس پس منظر میں جاری کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کے ایک وزیر نے ابھی حال ہی میں الزام لگایا تھا کہ سعودی حکومت ’پیٹرو ڈالرز کے ڈھیروں‘ کے ساتھ مسلم دنیا میں عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں بین الصوبائی رابطوں کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی وجوہات میں سعودی عرب کی طرف سے مہیا کیے جانے والے نجی مالی وسائل بھی شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک میں سنی اسلامی اسکولوں اور دینی مدرسوں کی ایک بڑی تعداد کو خلیج فارس کی امیر عرب ریاستوں اور افراد سے فنڈز ملتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ یہ رقوم دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے اسلام پسند شدت پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہیں۔

اس تناظر میں اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے نے آج اپنے بیان میں کہا کہ وہ پاکستان میں اسلامی خیراتی اداروں، مسجدوں اور مدرسوں کو براہ راست کوئی مالی وسائل فراہم نہیں کرتا۔ بیان کے مطابق، ’’جب بھی مالی وسائل کی فراہمی کے لیے کوئی درخواست موصول ہوتی ہے، سعودی سفارت خانے کی طرف سے حکومت پاکستان کو اس سے مطلع کر دیا جاتا ہے۔‘‘

شمالی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کا آپریشن، فائل فوٹوتصویر: AFP/Getty Images/A. Qureshi

اس کے برعکس ڈی پی اے نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ کئی سکیورٹی تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ خلیج کے علاقے میں نجی شخصیات کی طرف سے ایک زیر زمین نیٹ ورک کی مدد سے ابھی بھی بڑی بڑی رقوم پاکستان پہنچائی جا رہی ہیں، اور ممکن ہے کہ یہ فنڈز پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہوں۔

پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے بقول اسلام آباد حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مسلح حملہ آوروں کے حملے اور اس میں 136 بچوں سمیت قریب ڈیڑھ سو افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کی روک تھام کی کوششوں کے تحت اس بارے میں سعودی عرب، قطر اور بحرین سمیت خیلج کی متعدد عرب ریاستوں کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا تھا۔

اسی دوران پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے، ’’نجی شخصیات اور تنظیموں کی طرف سے نجی اداروں کی غیر رسمی ذرائع سے فنڈنگ کو، چاہے وہ کسی بھی ذریعے یا کسی بھی ملک سے کی جا رہی ہو، دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت سخت نگرانی کے دائرہ کار میں لایا جا رہا ہے، تاکہ دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے فنڈنگ کے ہر امکان کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں