پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ
18 مارچ 2014ابھی تک ماہرین طب ذیابطس کا مکمل علاج دریافت نہیں کر پائے ہیں اور اسے کنٹرول میں رکھنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی کوئی آسان کام ہر گز نہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں تو بالکل بھی نہیں جہاں ذیابطس یا شوگر کے جدید طریقہء تشخیص کی جانب ہی بہت کم لوگ رجوع کرتے ہیں اور بہت تو سستے اور عطائی طریقوں میں بھٹک کر خود کو مزید مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ اس پر حد یہ کہ خون میں شکر کی مقدار یا بلڈ شوگر کی سطح کو قابو میں رکھنے کے لیے انتہائی ناگزیر ورزش کا رجحان بھی پاکستان میں خاصا کم ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جو پاکستان کے سابق مایہ ناز کرکٹر وسیم اکرم ذیابیطس سے متعلق نشستوں میں کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ سینتالیس سالہ وسیم اکرم ایک طویل عرصے سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں مگر کسی صورت بھی اپنے بلند حوصلے کی بدولت اس مرض کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیتے۔ کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران وسیم اکرم نے بتایا کہ وہ ہر روز کم از کم ایک گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں اور شام کو کھانہ کھانے کے بعد جلدی سوجاتے ہیں۔ وسیم اکرم کے بقول،" اس حوالے سے جو سب سے بڑی غلط فہمی ہے وہ یہ کہ لوگ ڈاکٹر کی بات نہیں سنتے، اپنے مالی یا ڈرائیور کی بات سن لیتے ہیں، تعویز لے لیتے ہیں، دوائی لینا چھوڑ دیتے ہیں کہ انسولین نہ لگائیں، حالانکہ دراصل انسولین ہی اس معاملے میں زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے"۔
وسیم اکرم ایک نجی دوا ساز ادارے کے برانڈ امبیسڈر کے طور پر اس کی پراڈکٹس کی مشہوری تو کرتے ہی ہیں لیکن وہ زیادہ زور اس بات پر دیتے ہیں کہ معمولات زندگی انتہائی منظم اور چاک و چوبند رکھے جائیں۔ ذیابیطس کی آگہی مہم کے سلسلے میں منعقد اس نشست میں یہ انکشاف ہوا کہ انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک گھنٹے کے اندر اوسط بنیادوں پر دس افراد کی موت ذیابطیس سے متعلقہ پیچیدگیوں کے باعث ہوتی ہے۔
ماہرین طب کے بقول بے وجہ اور تواتر سے بھوک و پیاس کا لگنا اور مسلسل پیشاب کا آنا ذیابیطس کی علامات ہوسکتی ہیں مگر عطائی معالجوں کے جھانسوں میں آنے کے بجائے بروقت اور مستند ڈاکٹروں کے ہاں سے چیک اپ کرالینا چاہیے۔ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا کہ باشعور افراد جن کے کھانے پینے اور ورزش کے معمولات میں توازن موجود رہتا ہے، ذیابیطس سے بچے رہتے ہیں اور اگر ذیابیطس کا شکار ہوجائیں تو اس کی پیچیدگیوں کا شکار نہیں ہوتے۔
وسیم اکرم کے بقول انہوں نے دنیا کے کئی دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں یہ دیکھا کہ لوگ بلاوجہ شرم کے مارے اپنا مرض چھپاتے ہیں اور یوں اپنی مشکلات میں خود ہی اضافہ کرتے ہیں،" ہمارے کلچر میں یہ ہے کہ جس کو شوگر ہو اس سے کہتے ہیں کہ، او تجھے شوگر ہے تو تھک جائے گا سو جا، تو اسے ویسے ہی بہانہ چاہیے ہوتا ہے کچھ نہ کرنےکا، لیکن دراصل آپ ایک نارمل زندگی جی سکتے ہیں اگر آپ کو گولی (انسولین) تجویز کی گئی ہے تو آپ گولی ٹائم پر کھائیں اور کھانا دیکھ کر کھائیں۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ میٹھے کے بغیر کیسے زندگی گزرے گی تو میں اس سوال کا جواب دے نہیں پاتا ہوں مجھے غصہ آجاتا ہے"۔
پاکستان میں اس وقت ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا مریضوں کی تعداد کا انداز ستر لاکھ کے قریب لگایا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ان ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے، جہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں یہ عارضہ زیادہ عام ہے۔ پاکستان میں سرفہرست چنیدہ تعلیمی اداروں میں سے ایک آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ایک سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی ذیابیطس کی پیچیدگیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ آگہی اور احتیاط ہی اس بیماری سے نمٹنے کے بہترین طریقے ہیں۔