1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی پہلی علاج گاہ

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور26 نومبر 2013

پاکستانی شہر لاہور کے علاقے جلو موڑ میں واقع ایک غیر سرکاری فلاحی ہسپتال گھرکی ٹرسٹ ٹیچنگ ہسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی پہلی باقاعدہ علاج گا ہ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جو اپنی مدد آپ کی بنیاد پر کام کرے گی۔

تصویر: DW/T. Shahzad

ایک سو چودہ بستروں اور پانچ آپریشن تھیٹرز پر مشتمل ملک کے پہلے سپائن سنٹر کا با ضابطہ افتتاح اگلے مہینے ہو گا۔ چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس سپائن سنٹر پر پچھلے دو سالوں میں خرچ ہونے والے تیس کروڑ روپوں میں سے صرف ڈھائی کروڑ روپے پنجاب حکومت نے فراہم کیے ہیں، باقی تمام رقم عام لوگوں اور مخیر حضرات کے عطیات سے حاصل کی گئی ہے، ایک کروڑ روپے سے زائد ماہانہ خرچ والے اس سنٹر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ارب روپے کا انڈولمنٹ فنڈ بھی قائم کیا جا رہا ہے تاکہ اس سینٹر کو کسی محتاجی کے بغیر آزادانہ طور پر چلایا جا سکے،۔

اس سے پہلے گھرکی ہسپتال کے ارتھوپیڈک کے شعبے میں محدود پیمانے پر ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کے علاج کی سہولت میسر تھی، اس سپائن سنٹر کے شروع ہونے سے غریب لوگوں کی بڑی تعداد کو مفت علاج کی سہولت میسر آ سکے گی، گھرکی ہسپتال میں ڈائریکٹر آف سپائن اینڈ آرتھوپیڈک سرجری پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز نے بتایا کہ پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض عام ہیں ، ٹی بی ، حادثات، جرائم اور دہشت گردانہ واقعات اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہر سال چالیس سے پچاس ہزار مریض ریڑھ کی ہڈی سے متعلقہ مسائل کے ساتھ ہسپتالوں میں لائے جاتے ہیں، یاد رہے پاکستان میں تیس لاکھ سے زائد ٹی بی کے مریض ہیں، اور ہر سال ان میں ایک لاکھ نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے،ٹی بی کے شکار مریضوں کی بھی ریڑھ کی ہڈی کی سرجری درکار ہوتی ہے، اس سے پہلے ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کے علاج کے لیے گھرکی ہسپتال میں بلا معاوضہ کام کرنے والے ڈاکٹروں نے ایک چھوٹا سا سپائن یونٹ قائم کر رکھا تھا، ٹوٹی ہدیوں کو جوڑنے، کبڑے پن کو درست کرنے، کمر کی رسولیاں نکالنے، اور مہروں سے کینسر کے اثرات نکالنے سمیت بہت سے طبی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں،۔

سوئزرلینڈ میں قائم سپائن سرجنوں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن اے او سپائن انٹرنیشنل نے پاکستان سپائن سنٹر کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر عامر عزیز کو اپنی بین الاقوامی فیکلٹی میں شامل کر رکھا ہے، اس وجہ سے لاہور کے سپائن سنٹر میں آئرلینڈ، فلپائن اور نیپال سمیت مختلف ملکوں کے سپائن سرجن تربیت حاصل کرنے آتے ہیں، سعودی عرب،عراق، کویت اور بنگلہ دیش سمیت کئی ملکوں کے اسی سے زائد سرجنز اس سنٹر سے تربیت کے حصول کے لیے ویٹنگ لسٹ میں موجود ہیں، یہ سنٹر اب تک بیس پاکستانی سرجنوں کو سپائن سرجری کی تربیت دے چکا ہے،۔

سپائن انٹرنیشنل نے پاکستان سپائن سنٹر کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر عامر عزیز کو اپنی بین الاقوامی فیکلٹی میں شامل کر رکھا ہےتصویر: DW/T. Shahzad

دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں لاکھوں روپے میں ملنے والا ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ پاکستانی سرجن پانچ سے دس ہزار روپے میں مقامی ٹاٹینیئم سے بنوا کر کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں، اس سنٹر میں اب تک جن ایک ہزار مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے ان کا ڈیٹا عالمی کانفرنسوں میں پیش کرنے کے بعد اب تحقیق کے لیے مرتب کیا جا رہا ہے،۔

ڈاکٹر عامر عزیز نے مزید بتایا کہ جرمنی کے تیار کردہ طبی آلات اپنے بہتر میعار کی وجہ سے دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں، ”اب ہم جرمنی میں مقیم بعض پاکستانیوں کی مدد سے سپائن سنٹر کے لیے جرمنی کے کسی بند ہو جانے والے ہسپتال کی طبی مشینری کم پیسوں میں خریدنا چاہتے ہیں، تاکہ انتہائی محدود وسائل والے اس یونٹ میں سی ٹی اسکین مشین سمیت دیگر آلات کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔

داکٹر عامر عزیز کو دکھ ہے کہ ان کے وطن میں شوکت عزیز جیسا وزیر اعظم اپنی کابینہ کے لیے چونتیس ایسی بلٹ پروف گاڑیاں منگوالیتا ہے، جن میں سے صرف ایک گاڑی کی قیمت ایک ملین ڈالر ہوتی ہے، لیکن پچھلی وفاقی حکومت وعدے کے باوجود اس سنٹر کے لیے ایم آر آئی مشین کے لیے ایک پیسہ بھی نہ دے سکی۔ تاہم انہیں یقین ہے کہ سپائن سنٹر جلد مکمل ہو گا اور غریب لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میسر آئے گی،

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں