1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سالانہ تقریبا 9 ارب ڈالر کا فراڈ، ذمہ دار کون؟

2 نومبر 2025

ایک حالیہ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ہونے والے فراڈز میں لوگوں سے تقریبا 9 ارب ڈالرز لوٹ لیے جاتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کی قومی مجموعی پیداوار کا ڈھائی فیصد بنتی ہے۔

آن لائن فراڈ
پاکستان میں دھوکہ دہی سے لوٹی گئی یہ رقوم آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے بھی زیادہ ہےتصویر: Tim Goode/PA Wire/picture alliance

گلوبل اینٹی اسکیم الائنس اور فیڈزائی کی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانمیں جعلی آن لائن خریداری، فون کالز کے ذریعے بینک فراڈ اور دھوکہ دہی پر مبنی سرمایہ کاری اسکیموں سمیت مختلف فریب کاریوں میں عوام سے ہر سال تقریبا 9.3 ارب ڈالر لوٹ لیے جاتے ہیں۔

اس تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی شہریوں سے لوٹی گئی رقوم آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے حالیہ قرض پروگرام سے بھی زیادہ ہیں۔

 یہ تخمینہ پاکستان میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج سے لگایا گیا ہے۔ شرکاء سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں گزشتہ بارہ مہینوں میں کسی آن لائن، مالی یا فون پر دھوکے کا سامنا ہوا؟ اگر ہوا تو انہوں نے کتنا نقصان برداشت کیا اور رپورٹ کیا یا نہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 35 فیصد لوگ شہریوں کو فراڈ   حکومتی حکومتی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن فراڈ کوئی پوشیدہ بات نہیں، جہاں تقریباً ہر شخص ہی کسی نہ کسی دھوکے کی کوشش کا سامنا کر چکا ہے مگر رپورٹ میں بتایا گیا تخمینہ خاصا مبالغہ آرائی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔

 بینکر راشد مسعود نے بتایا کہ ان کے اپنے خاندان کے دو افراد بھی دھوکے کا شکار ہوئے مگر ان کا کہنا تھا کہ مجموعی نقصان کی یہ رقم بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہے کیونکہ پاکستان میں ایسے فراڈ سے متعلق قابلِ اعتبار اور منظم ڈیٹا موجود نہیں اور عالمی سطح پر ایسے فراڈ کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنا  بھی ممکن نہیں ہے۔

مصنوعی ذہانت سے جڑے اسکیمز سے خبردار رہیے!

02:41

This browser does not support the video element.

صارفین کو آن لائن فراڈ سے بچانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟

راشد مسعود کا کہنا ہے آن لائن فراڈ سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری حکومت اور مالیاتی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جانا چاہیے۔ تاہم ان  کے بقول کچھ تک ذمہ داری افراد پر بھی عائد کی جا سکتی ہے کیونکہ انہیں اپنے ذاتی ڈیٹا کی زیادہ حفاظت کرتے ہوئے آن لائن یا کسی نامعلوم کال پر محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

 دھوکہ دہی کا شکار زیادہ تر افراد عموماً تمام تر الزام سرکاری اداروں جیسے ایف آئی اے پر ڈال دیتے ہیں۔ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری سائبر کرائم سے نمٹنا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ چونکہ دھوکے باز فون کالز اور پیغامات کے ذریعے کام کرتے ہیں، اس لیے اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں تو ان کا سراغ لگانا ممکن ہے۔

راشد مسعود کہتے ہیں، ''یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ ملک میں مؤثر تفتیش اور پراسیکیوشن کا نظام موجود نہیں۔ اگر کبھی ملزمان پکڑے بھی جائیں تو کمزور پراسیکیوشن کے باعث رہا ہو جاتے ہیں۔ یہی چیز فراڈ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔‘‘

پاکستان میں دھوکہ دہی صرف بینکنگ فراڈ تک محدود نہیں، جس میں لوگوں سے فون پر او ٹی پی حاصل کر لیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کو سوشل میڈیا پیغامات، جعلی آن لائن دکانوں اور سرکاری ویب سائٹس سے مشابہ جعلی پورٹلز کے ذریعے بھی فریب دیا جاتا ہے۔

ایک نمایاں مثال امریکی ویزا کی طرح کی ایک جعلی ویب سائٹ ہے، جس پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اصل فارم بھر رہے ہیں اور آخر میں ان سے ''پروسیسنگ فیس‘‘ جمع کروانے کا بھی کہا جاتا ہے۔

اسلام آباد کے رہائشی محمد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ بھی ایک مرتبہ دھوکہ کھانے کے قریب پہنچ چکے تھے، ''میں نے فارم بھر لیا تھا اور فیس ادا کرنے ہی والا تھا کہ ایک دوست نے خبردار کیا کہ یہ ویب سائٹ مشکوک لگ رہی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ واقعی جعلی تھی۔‘‘

مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صارفین کو خود بھی محتاط رہنا چاہیے، مگر متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو مزید ذمہ داری لینا ہوگی۔ ریاض حسین، جو دو سال قبل چار ملین روپے کے فراڈ کا شکار ہوئے، کہتے ہیں، ''ہر کوئی اتنا چوکس نہیں ہوتا۔‘‘

ان کے بقول فراڈ کرنے والوں نے ان کا او ٹی پی حاصل کرکے ان کے اکاؤنٹ سے درآمد شدہ موبائل فونز پر ٹیکس کی ادائیگی کر دی، ''ایف آئی اے ان لوگوں کو فون نمبرز کے ذریعے ٹریس کر سکتی ہے لیکن اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔‘‘

مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صارفین کو خود بھی محتاط رہنا چاہیےتصویر: Steven Saphore/AAP/IMAGO

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا کیا کہنا ہے؟

رابطہ کرنے پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بتایا کہ اس طرح کی شکایات ماضی میں موصول ہوئیں، جس کے بعد اس سلسلے میں اقدامات کیے گئے۔ پی ٹی اے کے ایک ٹیکنیکل افسر کے مطابق اب درآمد شدہ موبائل فونز پر ٹیکس کی ادائیگی صرف بینک میں جا کر کی جا سکتی ہے تاکہ اس مقصد کے لیے آن لائن ٹرانزیکشنز کو محدود کرکے فراڈ کے امکانات کم کیے جا سکیں۔

یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ملک میں مالیاتی سائبر جرائم کے اعدادوشمار مرتب کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ مختلف اداروں کے پاس شکایات کا ریکارڈ بکھرا ہوا ہے اور اکثر یہ ڈیجیٹل شکل میں بھی محفوظ نہیں کیا جاتا کہ ضرورت پڑنے پر اس کا تجزیہ کیا جا سکے۔

گلوبل اینٹی اسکیم الائنس نے بھی پاکستان میں فراڈ کی صورتحال جانچنے کے لیے سروے کا طریقہ استعمال کیا اور ایک ہزار پاکستانیوں کے نمونے کی بنیاد پر اپنی رپورٹ تیار کی۔

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ سے بھی رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کتنی شکایات موصول ہوتی ہیں اور بینک اس سلسلے میں کیا اقدامات کر رہے ہیں۔

 اسٹیٹ بینک کے کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ مکمل اعدادوشمار فراہم نہیں کیے جا سکتے کیونکہ وہ قانون کے تحت محفوظ ہوتے ہیں، البتہ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی سالانہ رپورٹس میں کچھ معلومات جاری کریں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی ہدایت پر بینک آگاہی مہمات بھی چلا رہے ہیں اور صارفین کو خود بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کارکردگی نہیں دکھاتے اور عوام میں آگاہی کو منظم انداز میں نہیں بڑھایا جاتا، پاکستان آن لائن اور آف لائن دونوں طرح کے فراڈ کے لیے ایک موزوں میدان بنا رہے گا۔

پاکستان میں آن لائن ہیلتھ کئیر کی سہولیات

02:56

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں