پاکستان میں سرکاری اسکولوں کی کمی، متبادل نظام کیا ہے؟
صائمہ حیدر
7 نومبر 2017
پاکستان میں بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دینی مدرسے، نجی اسکول اور فلاحی تنظیموں کے زیر انتظام تعلیمی ادارے، ملک میں سرکاری اسکولوں کی کمی کو دور کرنے کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستان کے دارالحکومت سے تیس کلومیٹر دور مری کے ہِل اسٹیشن پر واقع الندوہ مدرسہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں حصول تعلیم کے متبادل نظام کا ایک حصہ ہے۔ پاکستان میں قریب پچاس ملین بچے اسکول جانے کی عمر میں ہیں لیکن ان بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت کے دستیاب وسائل بہت کم ہیں۔
پاکستانی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ بیس ہزار اسکول ہونے کے باوجود اب بھی بیس ملین کے قریب بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کا کہنا ہےکہ سن 2010 سے اب تک ہر سال حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں پندرہ فیصد اضافہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص موجودہ بجٹ تقریباﹰ آٹھ بلین ڈالر ہے جو جی ڈی پی کا 2.65 فیصد اور فی طالب علم ڈیڑھ سو ڈالر بنتا ہے۔
پاکستان میں ’مشال اسکول سسٹم‘ کی بانی زیبا حسین کا کہنا ہے کہ مسئلہ اسکولوں کی تعداد کا نہیں بلکہ تعلیمی معیار کا ہے۔ زیبا حسین کو فلاحی اسکولوں کے سلسلے ’مشال‘ کے آغاز کا خیال اسلام آباد کے نواحی پہاڑی علاقے کا دورہ کرتے ہوئے مہاجر بچوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے بعد آیا تھا۔
وفاقی تعلیمی ڈائریکٹر طارق مسعود کا کہنا ہے کہ تعلیمی معیار کے حوالے سے اساتذہ کو الزام دینا ٹھیک نہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے مسعود نے کہا کہ آبادی میں اضافہ اور فنڈز کی کمی سرکاری اسکولوں کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔
ملک میں غرباء اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے عام طور پر دینی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ ان مدارس کا کہنا ہے کہ وہاں بچوں کو تین وقت کا کاکھانا ، رہنے کے لیے جگہ اور اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔
الندوی مدرسہ کے عرفان شیر کے مطابق بعض والدین اپنے بچوں کو محض اس لیے مدرسے میں بھیجتے ہیں کیونکہ وہ انہیں کھانا کھلانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔
پاکستان کے دو بچوں نے اٹھائی بڑی ذمہ داری
کئی بار بڑے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بچے بازی لے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی کیا کراچی میں رہنے والی شیریں اور ان کے بھائی حسن نے۔ بے گھر بچوں کو تعلیم دینے کی جو ذمہ داری حکومت کی ہے، وہ ان بچوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
ذہین بچے
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی شیریں اور دسویں کلاس میں پڑھنے والے ان کے بھائی حسن نے کراچی کی سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے اسکول کھولا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن ہزاروں بچوں کے لیے سڑکیں ہی ان کا گھر ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
جدوجہد
دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ان بچوں کے لیے اسکول جانا کوئی ترجیح کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن شیریں اور حسن اسکول کو ہی ان بچوں تک لے گئے ہیں۔ کراچی کے علاقے كلفٹن میں بے آسرا بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بچے بھی کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
آغاز کیسے ہوا
اسٹریٹ اسکول کھولنے کا خیال کیسے آیا؟ شیریں بتاتی ہیں، ’’ایک بار میں اس سڑک سے جا رہی تھی کہ مجھے ایک بچی ملی۔ اس نے بھیک لینے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی مجھے پڑھنا ہے، کیا آپ یہاں آ کر مجھے پڑھا سکتی ہیں؟‘‘ یہی وہ لمحہ تھا جب شیریں نے ان بچوں کو تعلیم دینے کا سوچا۔
تصویر: DW/A. Saleem
سب کا ساتھ
شیریں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک بچے کو پڑھانا شروع کیا لیکن کچھ ہی دن میں اور بھی بہت سارے بچے پڑھنے کے لیے وہاں آنے لگے۔ اس کوشش میں شیریں کے بھائی حسن نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔ اپنے بچوں کا جذبہ دیکھ کر شیریں اور حسن کے والدین نے اس منصوبے کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے۔
تصویر: DW/A. Saleem
راشن بھی ملتا ہے
ایسے بہت سے بچوں پر ان کے خاندان بھی مالی انحصار کرتے ہیں۔ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ جب وہ گھر واپس جائیں تو کھانا یا پیسے لے کر آئیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹ اسکول میں آنے والے بچوں کو 50 روپے اور ان کے خاندانوں کو راشن بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو پڑھنے سے نہ روکیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
نشے سے پڑھائی کی طرف
اسٹریٹ اسکول میں آنے والے کچھ بچے نشے کے عادی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے خاص تھراپی کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ نشے کی لت چھوڑ کر تعلیم پر توجہ دیں سکیں۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں، لیکن جب ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔
تصویر: privat
لاکھوں بے گھر
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر 12 سے 13 لاکھ بچے رہتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، جس کا سبب غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بڑھتے ہوئے قدم
شیریں بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا تھا تو انہیں حروف کی معلومات تو دور بلکہ صحیح طرح پینسل پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن اگر آج دیکھا جائے تو یہ پڑھ لکھ سکتے ہیں۔ شیریں چاہتی ہیں کہ وہ ہر بے گھر بچے کو پڑھائیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
چل نکلا کارواں
شیریں اور حسن کے اسکول نے ایک سال کے اندر اندر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ان کے اسکول میں اب 75 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان بھی ان کی اس کوشش میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں۔ یہ ادارے اس اسٹریٹ اسکول کو سامان مہیا کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گلوبل یوتھ آف دی ایئر
بہن بھائی کی ایک اچھی کوشش کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انہیں دسمبر 2016 میں تائیوان میں گلوبل یوتھ آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شیریں اور حسن کے خاندان کو اپنے ان بچوں پر فخر ہے۔
تصویر: privat
شمع کی صورت
کراچی کے ہر کونے میں ایسا ایک اسکول کھولنے کی شیریں کی خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے لیکن ایک سال کے اندر اندر انہوں نے ایک راستہ تو دکھا ہی دیا ہے کہ اگر حکومتیں چاہیں تو اس طرح لاکھوں بے گھر بچوں کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔