1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سرگرم عدلیہ کے باعث کئی سیاستدانوں کا مستقبل خطرے میں

28 مارچ 2013

پاکستان میں عدالتی کارروائیوں کی زد میں آنے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کی آئندہ عام انتخابات میں شرکت مشکوک ہوگئی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے علاوہ سابق صدر پرویز مشرف اس فہرست میں نمایاں ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزارت عظمیٰ سے رخصت کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات لڑنے کے لیے بھی نا اہل قرار دے رکھا ہے۔ گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف سوئس حکام کو خط لکھ کر وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب رہے لیکن انہیں کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں مبینہ کرپشن پر قومی احتساب بیورو کی کارروائی کا سامنا ہے۔

اسی دوران سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ عدالت نے بطور وزیراعظم ان کی جانب سے 8 مارچ کو چیف جسٹس کو لکھے گئے خط پر وضاحت کرنے کا کہا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے خط میں کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا کہا گیا ہے جو عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ عدالت کا ضرورت سے زیادہ فعال ہونا درست عمل نہیں۔ انہوں نے کہا ’’یہ ایکٹوازم بے لگام گھوڑا بن گیا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اختیارات پر قبضہ کر کے اس کا منتخب استعمال کرنے سے ہمارے سیاسی ڈھانچے کو اس سے خطرہ ہو جائے گا اگر یہ یکطرفہ رہا اور ویسے بھی میں سمجھتی ہوں کہ سپریم کورٹ کو جتنی کم مداخلت ہو سکے کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن قائم ہے اور لوگوں نے الیکشن کمشنر پر بہت اعتماد کیا ہے اتنا اعتماد عدلیہ کو نہیں دیا ‘‘۔

سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو ساتھ انتخابات لڑنے کے لیے بھی نا اہل قرار دے رکھا ہےتصویر: AP

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے 2008ء میں جعلی ڈگریوں پر انتخاب لڑنے والے 34 ارکان کے خلاف 4 اپریل سے قبل پولیس اور ماتحت عدالتوں کو کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، جہاں سے نا اہلی کی صورت میں یہ ارکان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔عدالت عظمیٰ نے دوہری شہریت پر مستعفی ہونے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے 20 ارکان کو بھی یکم اپریل کو طلب کر لیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ان ارکان نے جھوٹ بول کر پارلیمان کی رکنیت حاصل کی جس کی سزا آئین کے تحت نا اہلی ہے۔

ادھر سابق فوجی صدر پرویز اشرف بھی مختلف حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی تو جمع کرا رہے ہیں لیکن انہیں بھی ممکنہ طور پر ماضی میں کیے گئے اقدامات خصوصاً 3 نومبر 2007ء کو ہنگامی حالت کے نفاذ پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں جنرل مشرف کے خلاف آئین کی پامالی پر غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت ہوئی۔ تاہم درخواست گزار کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے مہلت دیتے ہوئے درخواست کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیاتصویر: picture-alliance/dpa

لال مسجد میں فوجی آپریشن کے خلاف مسجد انتظامیہ کے وکیل طارق اسد نے بھی جنرل مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ جب تک ٹرائل مکمل نہیں ہوتا اور جب تک کمیشن کی کارروائی مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک وہ ملک سے باہر نہ جا سکیں۔ اگر انہیں جانے دیا گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری سپریم کورٹ پر ہوگی کیونکہ سپریم کورٹ میں یہ درخواست 2007ء سے زیر التواء ہے اور اب ہماری درخواست بھی آ چکی ہے اس پر عملدرآمد نہ کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ جان بوجھ کر اس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔


خیال رہے کہ پاکستان میں قائم نگران حکومت میں وزیراعظم سمیت دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی سابق جج ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’’جوڈیشل ایکٹوازم‘‘ کے سبب اب پاکستان میں اکثر معاملات سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت: عدنان اسحاق

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں