پاکستان میں سزائے موت پر تیز رفتار عمل درآمد
18 مارچ 2015پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد چھ سالہ پابندی کے خاتمے کے بعد حکام اس اس سلسلے میں غیر معمولی تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کے مطابق بُدھ کو وسطی پنجاب کی مختلف جیلوں میں نو افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے گزشتہ برس دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے بھیانک حملے، جس کے نتیجے میں 136 معصوم بچوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں، کے ایک روز بعد 17 دسمبر کو سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد چھ سالہ پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
یورپی یونین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان کے اس اقدام پر ہونے والی کڑی تنقید کے باوجود گزشتہ ہفتے اسلام آباد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر طرح کے مجرموں کو سنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کر رہی ہے۔
پاکستان کی وزارت قانون کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں 8 ہزار قیدی اس وقت سزائے موت کے منتظر ہیں۔ ان میں سے قریب 25 فیصد کی تمام تر قانونی اپیل مسترد ہو چُکی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتوں کے دوران مزید مجرموں کو تختہ دار پر چڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی۔ ان میں 24 سالہ شفقت حسین بھی شامل ہے جسے جمعرات کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ شفقت حسین کو اُس وقت مجرم قرار دے دیا گیا تھا جب وہ 14 برس کا تھا۔
گزشتہ ویک اینڈ پر شفقت حسین کی ماں مکھنی بیگم نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ ان کے بیٹے کو سنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں سکونت پذیر اس بزرگ خاتون نے ٹیلی فون کے ذریعے اے پی کو بتایا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ شفقت بے قصور ہے۔
مکھنی بیگم نے کہا، ''میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں، میں عدلیہ سے بھیک مانگتی ہوں کہ وہ میرے بیٹے کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم دے۔ خدارا میرے بیٹے کی زندگی بخش دو، میرے بیٹے کو مجھ سے مت چھینو۔‘‘
اس خاتون کے مطابق اس کا بیٹا شفقت کراچی میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرنے گیا تھا اور اچانک اسے پتہ چلا کہ اس قتل کے ایک مقدمے میں دھر لیا گیا ہے۔ شفقت کے بھائی منظور نے الزام عائد کیا ہے کہ اقبال جرم کے لیے شفقت کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سن2004ء میں کراچی کی ایک عدالت نے ایک لڑکے کو قتل کرنے کے الزام میں شفقت کو سزائے موت سنائی تھی۔ عدالت کے سامنے اعتراف جرم کے بعد سنائی گئی اس سزا پر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس لڑکے کو سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے۔
پاکستان کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور ہیومن رائٹس گروپوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ شفقت حسین کی سزائے موت روک دی جائے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ نثار علی خان نے گزشتہ روز یعنی منگل کو کہہ دیا تھا کہ 24 سالہ شفقت حسین کو عدالتی فیصلے کے مطابق جمعرات کے روز سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔