پاکستان میں سوشل میڈیا کی نگرانی ماضی سے کہیں زیادہ اور سخت
10 مئی 2019
دھمکیاں، گرفتاریاں، بند کر دیے گئے اکاؤنٹ اور محدود کر دی گئی پوسٹس، یہ آج کے پاکستان میں سوشل میڈیا کی حالت ہے۔ ان دنوں پاکستان میں سوشل میڈیا کی اتنی زیادہ نگرانی کی جا رہی ہے، جتنی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
اشتہار
اس موضوع پر جمعہ دس مئی کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس مسلم اکثریتی ملک میں اختلافی رائے کے اظہار کے لیے مواقع یوں تو پہلے بھی کم تھے لیکن اب جس طرح ملکی ادارے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں، وہ حکام کی طرف سے ایسے پلیٹ فارمز کو سنسر کرنے کے پختہ ارادے کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بہت سے صحافیوں، سرگرم کارکنوں اور حکومت کے مخالفین کو جس طرح اندرون ملک اور بیرون ملک تعاقب کا نشانہ بنایا گیا، اور جس طرح انہیں ان کی آن لائن سرگرمیوں اور تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئی ہیں، یہ سب کچھ حکمران طبقے اور بااختیار حلقوں کی کم ہوتی ہوئی برداشت کا پتہ دیتا ہے۔
’منظم اور مربوط‘ حکمت عملی
صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی‘ یا سی پی جے نے گزشتہ برس ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سمیت مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں سنسرشپ کی تو پہلے بھی کمی نہیں تھی، لیکن اب ملکی فوج نے ’خاموشی سے اور بڑے مؤثر انداز میں‘ نیوز رپورٹنگ کے لیے خبریں جمع کرنے کے عمل کو بھی محدود بنا دیا ہے۔
اس دوران سوشل میڈیا کے فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارم اختلافی آوازوں کے حامل سماجی حلقوں اور صحافیوں کے لیے کچھ کہنے کی آخری جگہیں بن گئے تھے مگر اب وہاں بھی صورت حال بدل چکی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق اس سال فروری میں پاکستان میں حکام نے قانون نافذکرنے والے ایک ایسے نئے ادارے کے قیام کا اعلان کر دیا، جس کا مقصد سوشل میڈیا کے ان صارفین کے اکاؤنٹس کو بند کرنا یا غیر فعال بنانا ہے، جن پر حکام کی طرف سے ’نفرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے‘ کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
پچھلے برس نامعلوم افراد نے گل بخاری نامی ایک خاتون کالم نگار اور گاہے بگاہے حکومت پر تنقید کرنے والی صحافی کو کچھ دیر کے لیے اغوا کر لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ ’چڑھائی‘ بڑے ’منظم اور مربوط انداز‘ میں کی جا رہی ہے۔ گل بخاری کے بقول، ’’یہ وہ آخری سرحد ہے، جسے اب فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
لاپتہ ہونے والے افراد کون ہیں؟
پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران طالبان مخالف پانچ ایسے بلاگرز پرسرار طور پر لاپتہ ہو گئے، جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ لاپتہ ہونے والی یہ شخصیات کون ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
ثمر عباس
پاکستانی شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ثمر عباس انتہا پسندی کے خلاف قائم ’سول پروگریسیو الائنس‘ کے سربراہ ہیں۔ عباس کے ساتھی طالب رضا کے بقول عباس ایک محب وطن شہری ہیں اور وہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے حق میں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کوئی ریاست مخالف رویہ نہیں ہے۔
تصویر: privat
سلمان حیدر
انسانی حقوق کے فعال کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری بروز جمعہ اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم سلمان حیدر انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن ہیں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کے بارے میں بھی مہم چلا رہے ہیں۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ ایک کالم نویس اور تھیٹر آرٹسٹ کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
احمد وقاص گورایہ
سوشل میڈیا پر فعال احمد وقاص گورایہ (دائیں) چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ وقاص سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہالینڈ میں رہنے والے وقاص چھٹیوں پر پاکستان گئے تھے کہ لاپتہ ہو گئے۔ سائبر سکیورٹی تھنک ٹینک ’بائیٹس فار آل‘ کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان سرگرم سماجی کارکنوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خوف پیدا ہو چکا ہے۔
عاصم سعید
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عاصم سعید بھی چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ سنگاپور سے پاکستان جانے والے عاصم سعید کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشرفت پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ امریکا نے بھی یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
احمد رضا نصیر
سوشل میڈیا پر بہت فعال احمد رضا نصیر سات جنوری کو اچانک لاپتہ ہو گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پولیو کے مرض کے جسمانی اثرات کا بھی سامنا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کے لیے اسلام آباد اور کراچی میں احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
5 تصاویر1 | 5
’بدنامی کا سبب بننے والا ناپسندیدہ مواد‘
اسی طرح رضوان الرحمان رضی نامی صحافی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہیں فروری میں لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام یہ لگایا گیا تھا کہ وہ ریاست کے خلاف ’بدنامی کا سبب بننے والے ناپسندیدہ مواد‘ کی اشاعت کے مرتکب ہوئے تھے۔ اپنی گرفتاری سے چند روز قبل رضوان رضی نے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر تنقید کی تھی اور خاص طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں ٹوئٹر پر پیغامات پوسٹ کیے تھے۔
اس پاکستانی صحافی کو ان کی گرفتاری کے دو راتیں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ اب ٹوئٹر پر ان کی ’ناپسندیدہ‘ پوسٹس ڈیلیٹ کی جا چکی ہیں اور انہوں نے اپنی رہائی کے بعد سے ٹوئٹر پر پہلے کے عین برعکس کوئی پیغام پوسٹ نہیں کیا۔
پاکستان میں ڈیجیٹل سکیورٹی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق بااختیار حلقوں کو اس کریک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے نتائج بہت وسیع ہیں۔ انہوں نے ان نتائج کے حوالے سے خاص طور پر شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں، سیاسی اپوزیشن اور بلاگرز کے ہراساں کیے جانے کا ذکر کیا۔
م م / ع ا / اے ایف پی
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔