پاکستان میں سویڈن کی سماجی کارکن پر حملہ
4 دسمبر 2012پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اڑتیس سالوں سے فلاحی خدمات سر انجام دینے والی برجیٹا آلمبی کو جمعرات کے روز نامعلوم مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے دفتر سے آتے ہوئے ماڈل ٹاون میں واقع اپنے گھر کے پاس پہنچی تھیں۔
سویڈن سے تعلق رکھنے والی معمر سماجی کارکن برجیٹا آلمبی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فل گاسپل اسمبلیز آف پاکستان یعنی ایف جی اے چرچ کے چیئرمین پادری سلیم صادق کی درخواست پر ماڈل ٹاون تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف اقدام قتل کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ تین سو چوبیس کے تحت درج کیا گیا ہے۔
پولیس حکام نے منگل کے روز حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کا تفصیلی معائنہ کیا، گھر کے چوکیدار سے معلومات حاصل کیں اور متعدد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےماڈل ٹاون کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اویس ملک نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات تقریبا حتمی طور پر سامنے آئی ہے کہ یہ اسٹریٹ کرائم کی کوئی واردات نہیں تھی، کیوں کہ حملہ آوروں نے برجیٹا آلمبی کے بٹوے سے رقم کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس واقعے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک حملہ آوروں کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اسی علاقے سے ایک بین ا لاقوامی فلاحی ادارے سے وابستہ ایک امریکی شہری کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا،لیکن ان کی رائے میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ یہ علاقہ ایسی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کر لیا گیا ہے۔
ادھر لاہور کے جناح ہسپتال سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں موجود برجیٹا آلمبی کو منگل کی شام تک ہوش نہیں آیا تھا لیکن ڈاکٹروں کے بقول ان کی حالت خطرے سے قدرے باہر ہے اور ایک آپریشن کے ذریعے ان کے جسم میں موجود گولی نکالی جا چکی ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ پھیپھڑے میں لگنے والی گولی ان کے جسم میں انفیکشن کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ برجیٹا کی صحت یابی کے لیے لاہور کے گرجاؤں میں دعائیں بھی کی جا رہی ہیں۔
فل گاسپل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مرکزی ترجمان لیاقت قیصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اٹھائیس اگست انیس سو اکتالیس کو پیدا ہونے والی سویڈن کی شہری برجیٹا آلمبی پیشے کے اعتبار سے معلم ہیں اور وہ اپنے فلاحی منصوبوں کی وجہ سے پچھلے اڑتیس سالوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان کے مطابق اردو زبان پر عبور رکھنے والی یہ خاتون پاکستان میں لوگوں کو صحت اور تعلیم فراہم کرنے والے ساٹھ سے زائد فلاحی منصوبے چلا رہی ہیں۔
لیاقت قیصر کے بقول ان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی اور بظاہر یہ حملہ ملک میں پائے جانے والے عدم برداشت کے جذبات کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ ان کا جرم سفید بالوں والی ایک غیر ملکی عورت ہونا ہے، جسے کوئی بھی اپنا مخالف سمجھ کر مار سکتا ہے۔
پاکستان میں ایک مسیحی رہنما اور کیتھولک چرچ کے دا نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے یہ واقعہ نہ صرف اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں موجود عدم تحفظ کے احساس میں اضافے کا باعث بنے گا بلکہ اس سے غیر ملکیوں کے ذریعے چلنے والے فلاحی منصوبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق کئی علاقوں میں اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے یا تو بند ہو چکے ہیں یا ان کی سرگرمیاں محدود کی جا چکی ہیں۔ ان کے بقول کچھ عرصہ پہلے ملک میں مندروں اور گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا، ان کی رائے میں یہ پاکستان کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیلنے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یوسف کہنا ہے کہ سویڈن کی سماجی کارکن پر حملہ ایک افسوس ناک اقدام ہے۔ اس کی وجہ تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن ان کے مطابق اس واقعے سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان کے بقول شاید انتہا پسند یہ بات نہیں جانتے کہ سفید چمڑی والا ہر غیر ملکی امریکی پالیسیوں کا حامی نہیں ہوتا: "ہمیں کم از کم یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ کون پاکستان کی خدمت کر رہا ہے اور کون اس کا مخالف ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اہم شخصیات خاص طور پر غیر ملکی شخصیات کو نشانہ بنانے کے واقعات دوسرے حصوں میں بھی ہوئے لیکن اس سال پنجاب ایسی وارداتوں کا مرکز دکھائی دیا، کیوں کہ خیبر پختونخواہ صوبے میں حکومت نے غیر ملکیوں کے رہنے یا سفر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان کے بقول سال دو ہزار بارہ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک اور برا سال تھا۔ اس سال پورے ملک میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہوئے، خاص طور پر فرقہ وارانہ وارداتوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان کے مطابق صرف کراچی میں اس سال دو ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی بہتری کے لیے حکومت کو کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانا ہوگی اور اپنے اختیارات منوانا ہوں گے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: شامل شمس