1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیاسی ہلچل برقرار

12 جنوری 2012

پاکستان میں وزیراعظم کی جانب سے وفاقی سیکرٹری دفاع کی برطرفی اور اس کے بعدآرمی چیف کی جانب سے راولپنڈی میں فوج کی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کی تبدیلی کے اقدامات نے ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔

تصویر: dapd

جمعرات کو بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرصدارت راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا ۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے میمو کیس میں سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے اپنے بیان کے حوالے سے کور کمانڈرز کو اعتماد میں لیا۔ ملک کی سول اور فوجی قیادت کے درمیان حالیہ اختلافات کا سلسلہ متنازعہ میمو کے معاملے پر ہی شروع ہوا تھا۔

سپریم کورٹ میں میمو کیس کی سماعت کے دوران سول اور فوجی قیادت کا ایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ بعدازاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 9 جنوری کو ایک چینی اخبار کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا عدالت میں براہ راست جمع کرایا گیا بیان غیر آئینی ہے۔ وزیراعظم کے بیان پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور وزیر اعظم کے انٹرویو کو ایک سنگین الزام قرار دیا۔

وزیراعظم گیلانی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا عدالت میں براہ راست جمع کرایا گیا بیان غیر آئینی ہےتصویر: picture-alliance/dpa


وزیراعظم نے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا جس کے بعد راولپنڈی میں قائم بری فوج کی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بریگیڈ ماضی میں فوج کے اقتدار پر قبضے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اسی سبب اس کے کمانڈر کی تبدیلی سے یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ تاہم پھر وزیراعظم نے بظاہر نرم رویہ اختیار کیا اور کہا کہ آرمی چیف نے ان سے پوچھ کر آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان دیا۔

وزیراعظم کی اس نرمی کی جھلک پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماﺅں کے رویئے میں بھی نظر آئی۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”حکومت کسی قسم کے تصادم کی راہ نہ اپنانا چاہتی ہے نہ اس پر یقین رکھتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو ہماری قوم کو اتفاق رائے اور استحکام کی ضرورت ہے، ٹکراﺅ تو بربادی کا راستہ ہے‘‘۔


دوسری جانب جمعرات کو ہی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے۔ جن میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کے عزم کا اظہارکیا گیا تاہم مسلم لیگ ن کے رہنماء احسن اقبال نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کی تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔

حکومت کی سابق اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ملک کے تمام اداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے تمام ادارے چاہے وہ عسکری قیادت ہے چاہے وہ عدلیہ ہے وہ سیاسی لوگوں کی گفتگو اور اس کے چند دن کے اندر مثبت نتائج کی توقع رکھتے ہیں اس کا ان کو بھی انتظار کرنا چاہیے اور ایسا کوئی بھی اقدام جس سے اشتعال یا عدم تحمل ظاہر ہوتا ہو اس کی جانب نہیں جانا چاہیے‘‘

صورتحال میں ملک کے تمام اداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، فضل الرحمنتصویر: AP


بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ازخود ایسا اقدام اٹھانا چاہیے جس سے ملک میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کا راستہ روکا جائے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے’’ اگر کسی نے بھی ماورائے آئین اقدام کی کوشش کی تو عدلیہ ضرور اس کا راستہ روکے گی۔ انہوں نے کہا جب اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جائے تو پھرکوئی ایکشن نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ افواج پاکستان ایسی کوئی غلطی کرینگی۔ ہم افواج پاکستان کو یہ بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ 1973ءکے آئین میں ان کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔ اس ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے دیئے جائیں‘‘۔


دریں اثناء الیکشن کمیشن آف پاکستان جمعرات کی شام سینٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق سینٹ انتخابات 2 مارچ کو ہونگے ۔


رپورٹ: شکور رحیم

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں