پاکستان میں سیلاب: بارودی سرنگیں متاثرہ علاقوں میں
25 اگست 2010پاکستان میں ریاستی تاریخ کے بد ترین سیلابوں کے متاثرین ابھی سنبھل بھی نہیں پائے کہ شہری سلامتی کے حوالے سے ممکنہ طور پر ایک نیا خطرہ سر اٹھانے لگا ہے۔ شمالی پاکستان کے قبائلی علاقوں، ڈیرہ اسماعیل خان، مالا کنڈ، وادیء سوات، بلوچستان کے مختلف حصوں اور جموں کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب سے سیلابی ریلوں کے بہت سی زمینی بارودی سرنگیں بہہ کر ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ مہلک ہتھیار ممکنہ طور پر بہت سی شہری ہلاکتوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کے نمائندے مائیکل اوبرائن کا کہنا ہے کہ ”سیلابی علاقوں سے پانی میں بہہ کر آنے والی بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد نے نشیبی علاقوں میں خطرات بڑھا دئے ہیں، جہاں عام شہریوں کو اب احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ خاص طور پر بچوں کوخبردار کرنا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شے کو نہ چھوئیں۔
بین الاقوامی اداروں کے مطابق ایسی بارودی سرنگوں کے باعث اب تک ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں کوٹلی کے مقام پر تین واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔ ریڈ کراس کی ایک خاتون عہدیدار ستارہ جبیں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان بارودی سرنگوں کے سیلابی پانیوں کے ذریعے دوسرے علاقوں میں پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تو ایسا بارودی مواد سیلاب سے پہلے بھی موجود تھا مگر سیلابی ریلوں کے باعث یہ بارودی سرنگیں اب صوبہ خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں تک پھیل گئی ہیں۔
ستارہ جبیں کا کہنا ہے کہ متاثرین سیلاب جب اپنے علاقوں میں واپس پہنچیں گے، تو ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے وہ شدید خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے سربراہ شفقت ملک کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے جو بارودی مواد اور سرنگیں ملک کے دیگر حصوں تک پہنچ گئی ہیں، ان کی تلاش کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے ادارے نے سینکڑوں زمینی بارودی سرنگوں کا سراغ لگا کر انہیں ناکارہ بنایا اور وہ عام شہریوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ کسی بھی مشتبہ نظر آنے والی شے کو چھوا نہ جائے بلکہ فوری طور پر متعلقہ ادارے کو آگاہ کیا جائے۔
شفقت ملک نے بتایا کہ اس مشکل کام میں اب تک اقوام متحدہ اور ریڈ کراس سمیت کسی بھی بین الاقوامی ادارے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور یہ خطرناک کام صرف پاکستانی سر انجام دے رہے ہیں۔ چند مبصرین کے بقول افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور بین الاقوامی اداروں نے اب تک اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت : عصمت جبیں