پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد حکومت سے نالاں: اوکسیم سروے
6 اپریل 2011![](https://static.dw.com/image/5854444_800.webp)
بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوکسفیم کی کنٹری ڈائریکٹر نیوا خان نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں 34 فیصدافراد سستی خوراک اور 23 فیصد رہائش کی سہولیات جبکہ 22 فیصد صحت عامہ کو تعمیر نو میں ترجیح دیتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اوکسفیم کی مدد کرنیوالی پاکستانی تنظیم فافین کے مطابق اس سروے میں 2 ہزار سے زائد ایسے افراد نے حصہ لیا جو متاثرہ افراد کی ضروریات اور خواہشات سے اچھی طرح واقف تھے۔ فافین کے ریسرج منیجر رشید چوہدری کے مطابق 15 سے 24 جنوری 2011ء کے دوران کیے گئے اس سروے میں سندھ ، خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان کے سیلاب متاثرہ اضلاع کے افراد نے حصہ لیا۔
نیوا خان کے مطابق سالہا سال سے قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کی استعداد بڑھانے میں عدم توجہی کے باعث پاکستان اس ضمن میں ایک کمزور ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے زیادہ تر علاقوں میں ایمرجنسی ریلیف آپریشنز کو 31 جنوری 2011ء سے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم ہنگامی امدادی پروگراموں کی اچانک بندش متاثرین پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
اوکسفیم کی لینڈ ریفارمز اور اقتصادی مواقعوں سے متعلق منصوبے کی منیجر فاطمہ نقوی کے مطابق, سرکاری عمارتوں میں رہائش پذیر بے گھر متاثرین کو تیزی کے ساتھ ان عمارتوں کو خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔وہ کہتی ہیں، ’صرف صوبہ سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ میں 104 سرکاری سکول بے گھر متاثرین کے زیر استعمال ہیں۔‘
فاطمہ نقوی کے مطابق متاثرین سیلاب کے لیے پاکستان کو ملنے والی مالیاتی امداد کا عمل کچھ سست ، مبہم اور غیر مربوط رہا جس کے سبب ضرورت مندوں کو مطلوبہ وسائل میسر نہیں آ سکے۔
نیوا خان کے مطابق پاکستان میں مون سون کا سیزن شروع ہونے میں 4 ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ متاثرہ افراد کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد از جلد تعمیر نو کے ایسے شفاف منصوبے بنائے جس سے لوگوں کی مشکلات میں کمی لائی جائے۔
رپورٹ: شکور رحیم
ادارت:عنبرین فاطمہ