1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیلاب، ہلاکتوں کی تعداد ہزار سے زائد ہو گئی

28 اگست 2022

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جون سے اب تک مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

Pakistan - Flut
تصویر: Shahid Saeed Mirza/AFP

این ڈی ایم اے نے بتایا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید 119 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشیں ابھی تک جاری ہیں۔

سالانہ مون سون فصلوں کو سیراب کرنے اور پورے برصغیر میں جھیلوں اور ڈیموں کو بھرنے کے لیے ضروری ہے، لیکن ہر سال اس جنوبی ایشیائی ملک میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ بڑی تباہی بھی لاتا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس سال مون سون کے سیلاب نے 33 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے۔ ہر سات میں سے ایک پاکستانی باشندہ اس سال اس آفت سے متاثر ہوا ہے اور قریب دس لاکھ گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ این ڈی ایم اے نےمزید کہا کہ بیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت کردہ فصلیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ تین ہزار چار سو اکاون کلومیٹر طویل سڑکیں اور 149 پل بھی بہہ گئے ہیں۔

'ہمارے خوابوں کا گھر ہماری آنکھوں کے سامنے بہہ گیا‘

ہنگامی حالت کا اعلان

امسالہ مون سون کے دوران دو ماہ کی بارشوں نے ملک کے بیشتر حصوں میں شدید سیلاب کو جنم دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے۔ حکام نے ہفتہ کو ہی بتایا تھا کہ جون سے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران تقریباً 1,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتوار کو پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار نے بھی اس کی مزید تصدیق کر دی۔ ہلاکتوں کی نئی تعداد کا اعلان وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ہنگامی حالت کا اعلان کرنے اور اس آفت سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مدد طلب کیے جانے کے ایک دن بعد کیا گیا۔

صوبے خیبر پختونخوا میں بہت سے دریا پچھلے کچھ دنوں میں بپھر کر کناروں سے باہر آ گئےتصویر: Yasir Rajput/REUTERS

امدادی کارکن سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لاکھوں شہریوں کو نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حالات کے مزید سنگین ہو جانے کا خدشہ ہے کیونکہ  برسات کے موسم کے ابھی مزید دو ہفتے باقی ہیں۔

تازہ ترین صورت حال

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ کل ہفتےکے دن سے پہلے کے 24 گھنٹوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد میں 45 کا اضافہ ہوا۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بہت سے دریا پچھلے کچھ دنوں میں بپھر کر کناروں سے باہر آ گئے اور ایک مشہور ہوٹل سمیت کئی عمارتوں کو بہا کر لے گئے۔ ایک مقامی رہائشی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وادی کالام سے صوبے کے باقی حصوں تک بذریعہ سڑک رسائی بند ہے اور بجلی اور مواصلات کے نظام بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

چارسدہ میں انتظامیہ کی ایک اہلکار ثانیہ صافی نے کہا کہ پانی کی بہت زیادہ مقدار نے دریائے سوات میں ایک بڑے واٹر کنٹرول سسٹم کے دروازے کو تباہ کر دیا، جس سے چارسدہ اور نوشہرہ کے اضلاع میں سیلاب آ گیا۔

سکھر میں، سوات کے جنوب میں ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر، دریائے سندھ سے سیراب ہونے والی زرعی زمینیں بھی زیر آب ہیں اور دسیوں ہزار لوگ نسبتاً بلندی پر واقع سڑکوں اور شاہراہوں کی طرف پناہ کی تلاش میں ہیں۔

مصیبت میں گھری عوام، امرا اور سرمایہ کاروں کا کردار زیر بحث

لاہور جیسے گنجان آباد شہر تک کا نظام درہم برہم ہو چُکا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

پاکستان کے کافی پسماندہ صوبے بلوچستان میں ایک اہلکار نے بتایا کہ اس صوبے کے تمام 34 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں، سڑکوں کے نیٹ ورک تباہ اور پل بہہ چکے  ہیں۔

مزید انخلا کا حکم

ہفتے کے روز حکام نے خطرے سے دوچار علاقوں کے ہزاروں رہائشیوں کو اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہاں سیلاب کا خطرہ تھا اور بارشوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

ریسکیو 1122 ایمرجنسی سروس کے ترجمان بلال فیضی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ابتدائی طور پر کچھ لوگوں نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا، لیکن جب پانی کی سطح میں اضافہ ہوا تو وہ علاقہ خالی کرنے پر رضامند ہو گئے۔‘‘

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ فوجی اور ریسکیو ادارے جنوب میں سندھ، مشرق میں پنجاب اور ملک کے جنوب مغرب میں بلوچستان کے کئی اضلاع میں لوگوں کی مدد اور ان کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ''حکومت نے متاثرہ لوگوں کو مالی طور پر معاوضہ دینے کے لیے کافی فنڈز کی منظوری دی ہے، اور ہم اس مشکل وقت میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

 

ک م / م م (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں