1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں مسلسل شدید گرمی، کراچی میں پچاس سے زائد اموات

4 جولائی 2024

دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرف پاکستان کو بھی ان دنوں شدید گرمی کی مسلسل لہر کا سامنا ہے، جو اب اپنے تیسرے ہفتے میں ہے۔ حکام کے مطابق صرف کراچی میں شدید گرمی کی موجودہ لہر کے دوران پچاس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان: ایک موٹر سائیکل چار سوار، چاروں خود کو لُو سے بچانے کے لیے گیلی سفید چادروں سے سروں کو ڈھانپے ہوئے
پاکستان: ایک موٹر سائیکل چار سوار، چاروں خود کو لُو سے بچانے کے لیے گیلی سفید چادروں سے سروں کو ڈھانپے ہوئےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات چار جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملک میں موجودہ موسم گرما کے دوران انتہائی نوعیت کے موسمی حالات کی جو لہر اس وقت اپنے تیسرے ہفتے میں ہے، اس کی وجہ سے خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہسپتال بھرے ہوئے ہیں اور مردہ خانے بھرتے جا رہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بندرگاہی شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری شدید گرمی کے باعث ہیٹ اسٹروک جیسی طبی شکایات کے ساتھ مقامی ہسپتالوں میں لائے جاتے ہیں۔ ایسے افراد جو انتہائی گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں، ان کی لاشوں کی قانونی شناخت کے پیچیدہ عمل اور اس میں تاخیر کے سبب اب شہر کے مردہ خانے بھی بھرتے جا رہے ہیں۔

پاکستانی شہر جیکب آباد کے ایک نواحی دیہی علاقے میں شدید گرمی کے موسم میں ایک ہینڈ پمپ کے ارد گرد جمع خواتین اور بچیاںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

کراچی میں پچاس سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق

پاکستان میں شدید گرمی کی موجودہ لہر گزشتہ ماہ کے دوسرے نصف حصے میں شروع ہوئی تھی۔ کراچی پولیس کی خاتون ترجمان سمیہ سید کے مطابق اس لہر کے دوران صرف اسی شہر میں آج جمعرات تک 50 سے زائد افراد کی جان جا چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے۔

صوبائی دارالحکومت کراچی کے سب سے بڑے ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ترجمان حسن علی نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ صرف کل بدھ کے روز ہی اس ہسپتال میں ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ درجنوں نئے مریض لائے گئے۔

کراچی میں محکمہ موسمیات کے اعلیٰ اہلکار سردار سرفراز کے مطابق بدھ کے روز شہر میں درجہ حرارت 55 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کی شرح کے امتزاج سے طے کیے جانے والے ہیٹ انڈکس کا 55 ڈگری تک پہنچ جانا انتہائی غیر معمولی بات تھی۔

شدید گرمی کی ایک سہ پہر خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے لاہور سے گزرنے والی نہر میں نہاتے ہوئے لاتعداد شہریتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ساحلی شہر کراچی کی آبادی 20 ملین سے زیادہ ہے اور وہاں بدھ کے دن ریکارڈ کیا گیا 55 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا، جتنا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

اتنی زیادہ گرمی کئی حوالوں سے ناقابل برداشت

چیف میٹیورولوجسٹ سردار سرفراز نے بتایا، ''اتنا زیادہ درجہ حرارت کئی حوالوں سے عام لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ سمندر سے آنے والے ہوا بند ہو جاتی ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ کو 55 فیصد یا اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘

ملک گیر سطح پر فعال فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کا کراچی میں بھی ایمبولینسوں اور مردہ خانوں کا نیٹ ورک سب سے بڑا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر بتائے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

موسمیاتی ماہرین کے مطابق کراچی میں انتہائی زیادہ درجہ حرارت کا ناقابل برداشت ہو جانا کئی متنوع عوامل کا نتیجہ ہےتصویر: Shakeel Ahmad/AA/picture alliance

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان محمد امین نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ''ہمارے ریسکیو کارکن عام طور پر روزانہ کراچی شہر سے 30 اور 40 کے درمیان لاشیں اٹھاتے یا وصول کرتے ہیں۔ لیکن بدھ تین جولائی کے روز ان لاشوں کی یومیہ تعداد 140 سے زائد رہی۔‘‘

محمد امین کا کہنا تھا۔ ''یہ رجحان ہم اس وقت سے دیکھ رہے ہیں، جب سے شدید گرمی کی لہر شروع ہوئی ہے۔ ہمارے ریکسیو کارکن اب ہر روز کراچی میں جتنی لاشیں وصول کرتے یا اٹھاتے ہیں، ان کی تعداد 100 سے زیادہ ہی رہتی ہے۔‘‘

ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتائج سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جسے ان دنوں امسالہ گرمیوں کے دوران شدید گرمی کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔ پہلی لہر جون کے اوائل میں دیکھی گئی تھی، جب کئی پاکستانی شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)

جھلسا دینے والی گرمی سے کیسے بچا جائے؟

03:10

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں