اگر صرف منفی پہلوؤں کو ہی اجاگر کیا جاتا رہا تو نوجوان خاص طور پر لڑکیاں اس پیشے کو اختیار کرنے میں تذبذب کا شکار رہیں گی، جس کی وجہ سے پاکستان کو مستقبل میں نرسنگ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں صحت عامہ کے شعبے کے لیے ناگزیر سمجھے جانے والے نرسنگ کے پیشہ کی اہمیت وہی ہے، جو زندہ رہنے کے لیے سانس لینے کی۔ یہ حقیقت ہے کہ علاج معالجے کی سہولتیں کتنی ہی میسر کیوں نہ ہوں، علاج کرنے والے اپنے شعبہ میں کتنی ہی مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں، جب تک اس پورے نظام کو تربیت یافتہ نرسز کی سہولت حاصل نہ ہو، علاج معالجے کا نظام ہی احسن طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔
جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو دفعتاً کسی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ اگر علاج کے لیے ہمیں ہسپتال میں کچھ دن داخل ہونا ہو تو ہم وہ بھی سہہ لیتے ہیں اور پھر جب صحت یاب ہوتے ہیں تو خوشی سے دیوانہ وار ڈاکٹر کو شکریہ کے کلمات ادا کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس مسیحا کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، جنہوں نے بیماری میں ہمارا سب سے زیادہ خیال رکھا ہوتا ہے۔
معالج مرض کی تشخیص کر کے چلا جاتا ہے مگر نرسیں مریضوں کو ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے، ڈرپ لگانے اور دیگر ٹیسٹ کے لیے چوبیس گھنٹے متحرک رہتی ہیں۔ نرس سے ذرا سی کوتاہی و غفلت ہو جائے تو عتاب کا نشانہ بھی وہی بنتی ہے کیونکہ فرنٹ لائن پر ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں جسمانی و ذہنی مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نرسوں کی ذمہ داریاں دُہری ہو گئی ہیں۔ ایک طرف وہ بلا رنگ و نسل مریضوں کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر رہتی ہیں، دوسری جانب انہیں مریضوں کے اعصابی رویوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں، جو نرسوں کو روبوٹ سمجھتے ہیں کہ جیسے ان کے جذبات و احساسات نہیں ہیں۔ کچھ مرد حضرات ان سے بہانے بہانے سے باتیں کرتے ہیں، پھر ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یوں طائرانہ جائزہ لیتے ہیں گویا سکین کر رہے ہوں اور بسا اوقات ان کے گھروں تک کا پیچھا کرنے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
حالات کی کسمپرسی تو یہ ہے کہ نرسز کی ڈیوٹی ٹائمنگز زیادہ ہیں اور کبھی کبھار بوجہ نوٹیفکیشن دن کے علاوہ رات کی ڈیوٹی بھی کرنی پڑتی ہے، جس کے باعث پاکستانی سماج میں ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ افسانے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ ہے، جس کی وجہ سے خاندان والے اس پیشے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور لڑکیاں بھی اس فیلڈ کو چننے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اگر نرسز کے حالات کی بات کی جائے تو وہاں نرسنگ کو ایک نوبل پروفیشن گردانا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں نرسنگ اسٹاف کو محنت شاقہ کے باوجود زیادہ تر نظر انداز ہی کیا جاتا ہے۔ مریضوں کے نزدیک اور معاشرے کے ذہن میں بھی ان کی پکچر خاصی دھندلی ہے، جس کے سبب ان کا وہ رتبہ اور عزت نہیں ہوتی، جس کے وہ مستحق ہیں۔
پاکستان میں شعبہ نرسنگ کا سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ آج بھی اسے ''خواتین کا شعبہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ اب پاکستان میں مرد بھی اس پروفیشن کی جانب اپنی توجہ مبذول کر رہے ہیں لیکن ان کا گراف پھر بھی کم ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج ہے کہ کام اور ذمہ داریوں کی مناسبت سے تنخواہیں نہیں ملتیں۔ جب تنخواہیں کم ہوں گی، مراعات نہیں دی جائیں گی، تو بھلا کون لگن اور محبت سے کام کرے گا؟
حکومت وقت سے التماس ہے کہ نرسنگ شعبے کے عام سٹاف کی فلاح کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ ان ہزاروں نرسوں کے غریب خاندان کا گزارہ ہو سکے، جو محرومیوں اور مجبوریوں کے باوجود دن رات اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دے رہے ہیں۔
آخر میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ہو کہ نرسنگ صرف انجکشن لگانے کا نام نہیں ہے بلکہ وینٹی لیٹر میں پڑے اس مریض کو بچانے کا نام ہے، جس کی پروگنوسس ایک فیصد ہوتی ہے۔
میرے خیال میں ایک نرس کو نرسنگ کے شعبے میں تربیت یافتہ، حاضر دماغی سے رسپانس دینے والی نیز مسیحائی کے جذبے سے سرشار ہونا چاہیے۔ اس فیلڈ میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں لیکن انہیں عبور کر کے آگے، بس آگے ہی بڑھتے چلے جانا چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔