پاکستان میں غذائی کمی کے شکار بچوں کے لیے، اسکول فیڈنگ پروگرام
9 جون 2011ادارہ خوراک اور یونیسیف کے اشتراک سے ایسے بچوں کے’’اسکول فیڈنگ‘‘ کا ایک پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے، جوغذائی کمی کا شکار ہیں اور اسکول جانے کے باوجود کچھ عرصے کے بعد تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں اس پروگرام کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے جرمن سربراہ وولف گانگ ہربینگر نے کہا کہ غذاء اور تعلیم کی کمی پاکستان کی آبادی کے بڑے حصے کا مسئلہ ہے لیکن موجودہ حالات میں چھوٹے بچے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے ادارے اور یونیسیف نے اسکول فیڈنگ پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت 500 16 اسکولوں کے ساڑھے سولہ لاکھ بچوں کو ضروری غذا مہیا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مئی کے مہینے کے تک ساڑھے 13 ہزار اسکولوں کے 13 لاکھ بچوں کو خوراک اور نشو ونماء کے لیے ضروری غذا فراہم کی جا چکی ہے۔
تاہم وولف گانگ ہربینگر کے مطابق حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا ’’حکومت نے حال ہی میں کہا ہے کہ تعلیم سب کا حق ہے اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کو نافذ بھی کرے۔ اسکول تعمیر پہلے ہیں مزید کیے جائیں اور ان میں بچوں کو بھی لایا جائے‘‘۔
یونیسیف کے نمائندے نے کہا کہ اگر بچوں کو بہتر خوراک مہیا کی جائے گی تواس سے پرائمری کی سطح پر بچوں کے اندراج اور حاضری کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے اسکول سے باہر رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔’’بہت سی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں تعلیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ 70 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں یہ بہت بڑی تعداد ہے، پرائمری سے پہلے اور اس دوران بچے سکول نہیں جا پاتے‘‘۔
ورلڈ فوڈ پروگرام سے ہی منسلک پاکستانی اہلکار رضوان باجوہ کا کہنا ہے کہ ملک میں چند سال قبل بچوں میں غذائی کمی کے حوالے سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 46 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار تھے تاہم ان کے بقول گزشتہ سال آنے والے سیلاب اور دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ سے متاثر ہونے والے علاقوں میں یہ تعداد زیادہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکول فیڈنگ پروگرام کا ہدف اسی لیے متاثرہ علاقوں کو بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ پروگرام دیہی علاقوں کے لیے محدود ہے خصوصاً ان علاقوں میں، جہاں گزشتہ برس سیلاب آیا تھا اور جہاں پچھلے کچھ سالوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نتیجہ واضح نظر آ رہا ہے۔ جیسا کہ مالا کنڈ، فاٹا اور افغانستان سے منسلک بلوچستان کے مختلف سرحدی علاقے‘‘ ۔
پاکستان میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے نتیجے میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی۔ امدادی اداروں کے مطابق بچوں کے زیادہ تر مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔
رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت : عدنان اسحاق