1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں فائر وال کا تجربہ کتنا کامیاب؟

27 اگست 2024

پاکستان میں کئی مہینے گذر جانے کے بعد بھی انٹر نیٹ ٹریفک کی فلٹرنگ کے لئے فائر وال لگانے میں کامیابی کی کوئی اطلاع نہیں دستیاب ہے تاہم اس دوران جاری انٹرنیٹ کا بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔

ایک کمپوٹر اسکرین پر سست انٹرنیٹ کی وجہ سے براؤزر انتظار دکھا رہا ہے
سست انٹرنیٹ کی شکایت کاروباری افراد بھی کر رہے ہیںتصویر: Manaf Siddique/DW

پاکستان میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا صارفین کو اپنے آن لائن کاموں میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ ای کامرس سے لے کر برقی رابطوں تک ہر جگہ شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ 

پاکستان میں انسانی حقوق کی کمیشن نے بھی انٹرنیٹ کی روانی میں مسلسل رکاوٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کا معلومات کا حق، اور آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا حق بھی متاثر ہو رہا ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق رابطے کا حق کوئی رعایت نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے اس لئے حکومت کو سستے اور قابل اعتماد انٹرنیٹ تک عوام کی رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔ انٹرنیٹ میں رکاوٹوں اور اس کی اسپیڈ کی آہستگی کا معاملہ اب اخباری سرخیوں سے نکل کر لاہور ، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کی متعدد عدالتوں میں جا پہنچا ہے اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈیجیٹل صارفین کے حقوق کا تحفظ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔

ایک طرف پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی یا وفاقی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے متعلقہ ادارے عوام کو درست صورتحال کو بتا کر مطمئن کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اہم حکومتی شخصیات کے متضاد بیانات نے اس صورتحال کو مزید الجھا کر رکھ دیا ہے۔

سوموار کے روز پاکستانی صحافی حامد میر کی طرف سے انٹڑنیٹ کی سست رفتار کے حوالے سے دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے وکیل سے سلو انٹرنیٹ کے بارے میں ہوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ منسٹری نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی ہے۔

دوسری طرف جب پی ٹی اے کے وکیل سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ عدالت نے اس پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں بھی ایسی درخواست زیر سماعت ہے لیکن نہ کوئی وہاں ذمہ داری قبول کر رہا ہے اور ہی یہاں ۔

پاکستانی صارفین سست انٹرنیٹ کی شکایت کر رہے ہیںتصویر: Manaf Siddique/DW

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ٹیلی کام، انٹڑنیٹ، سائبر کرائم ، سوشل میڈیا اور ڈیٹا پروٹیکشن جیسے امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستان کے ممتاز قانون دان بابر سہیل نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک عوام کی رسائی ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔

ان کے بقول پاکستان کا آئین شہریوں کو آزادی اظہار، کاروبار کرنے اور ایسوسی ایشن کا حق دیتا ہے اور یہ سارے حقوق آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ''بدقسمتی سے پاکستان میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے حوالے سے صارفین کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ کرنے والی ضروری قانون سازی کا بہت فقدان ہے۔ مثال کے طور پر ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون کافی عرصے سے زیر التوا ہے اس پر قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اسی طرح ڈیجیٹل صارفین کے تحفظ کے لیے کئی اور قوانین بنانے کی بجائے پیکا قوانین کے رولز پر انحصار کرکے کام چلایا جا رہا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں بابر سہیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل چار کے مطابق شہریوں کے حقوق کچھ قانونی ذمہ داریوں کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ قانون ایک طرف شہریوں سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان حقوق کو استعمال کرنے کا تقاضا کرتا ہے، دوسری طرف وہ ریاست کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ ان بنیادی حقوق کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کرے۔

اگر کوئی حکومت اپنے مفادات کے لیے یا اپنے سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی سرویلینس کرے تو یہ ایک غیر قانونی اقدام ہوگا۔

پاکستان میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا صارفین کو کنٹرول کرنے کے لیے جو فائر وال لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا اگر اس میں وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کر لیتی، عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیتی تو اسے زیادہ تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ان کے بقول حکومت کی طرف سے چھپ چھپا کر لیے جانے والے کام شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔

اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے الجھ جاتے ہیں۔ ابھی تک صارفین کو یہ تک نہیں بتایا جا رہا کہ فائر وال کا معاملہ کہاں پہنچا ہے، اس میں کیا رکاوٹیں ہیں اور یہ سلسلہ  کب تک چلے گا۔ پی ٹی اے کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انٹرنیٹ کے معاملے کو درست ہونے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ان کے مطابق نئے نظام کی تنصیب کی کئی ڈیڈ لائنز گ‍‍زر چکی ہیں۔

آن لائن روزگار سے وابستہ پاکستانی خواتین پریشان کیوں ہیں؟

04:33

This browser does not support the video element.

بابر سہیل نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ فائر وال لگانے، یا انٹر نیٹ  کے منفی استعمال کو کنٹرول کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ اگر برطانیہ جیسا ملک ایک بچے کے انٹرنیٹ کے غیرذمہ دارانہ استعمال پرسنگین مسئلے کا شکار ہو سکتا ہے اور اس بچے کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو ہمیں بھی فیک نیوز کے خاتمے، جھوٹے پروپیگنڈے کو روکنے اور اپنی روایات اور اقدار کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘

پشاور ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے خلاف درخواست دائر کرنے والے وکیل نعمان محب کا کا خیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئین میں شہریوں کے لیے جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہ صرف فزیکل صورتحال تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان میں آن لائن حقوق بھی شامل ہیں ۔ ''مثال کے طور پر آئین ہمیں کاروبار کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ میں ایک وکیل ہوں ہماری کاز لسٹ آن لائن آتی ہے۔ میں اب عدالت کے فیصلے اور دوسری پارٹی کے جوابات ای میل کے ذریعے ملتے ہیں۔ ہم اپنے کلائنٹس کے ساتھ ملنے کی بجائے ان سے آن لائن میٹنگ کر لیتے ہیں اور عدالتی فائلوں اور دستاویزات کا تبادلہ آج کل وٹس ایپ پر ہوتا ہے۔ اگر انٹرنیٹ نہیں ہو گا یا سلو ہو گا تو میرا کام کیسے ہو سکے گا۔ اس لیے آئین کے مطابق میرے کاروبار کی آزادی صرف فزیکل آزادی تک ہی محدود نہیں ہے۔ اسی طرح ایسوسی ایشن کے حق کو بھی صرف آمنے سامنے کی ملاقات  تک نہیں محدود سمجھنا چاہیے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس بھی اس میں شامل ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں