1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں قید بھارتی شہری گوپال داس کی رہائی

28 مارچ 2011

پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اُس بھارتی شہری کو آزاد کرنے کے پروانے پر دستخظ کر دیے ہیں، جو گزشتہ تئیس برس سے پاکستانی جیل میں قید تھا۔ صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔

پاکستانی صدر زرداری اور بھارتی وزیر اعظم سنگھتصویر: AP

اتوار کے دن فرحت اللہ بابر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کی اپیل کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر پاکستان کو مشورہ دیا کہ بھارتی شہری گوپال داس کو رہا کر دیا جائے اور صدر پاکستان نے ان کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔

فرحت اللہ بابر کے بقول بھارتی شہری گوپال داس کی سزا مکمل ہو جانے کے بعد رواں برس کے اواخر میں اسے رہا کر دیا جانا تھا۔ اس بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ گوپال داس کس جرم میں سزا کاٹ رہا تھا۔ تاہم لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ گوپال داس پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بھارتی شہری اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں ہی قید ہے۔ اسے جون 1987ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی وزیر اعظم گیلانی اپنے بھارتی ہم منصب سنگھ کے ہمراہتصویر: UNI

پریس ٹرسٹ آف انڈیا PTI کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے رواں ماہ کے آغاز پر حکومت پاکستان سے اپیل کی تھی کہ گوپال داس نامی اس قیدی کو انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ پی ٹی آئی نے گوپال داس کے گھر والوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گوپال داس کی رہائی کی خبر سننے کے بعد بہت خوش ہیں۔ داس کے بھائی اننت ویر نے کہا،’ تمام گھر والے بہت خوش ہیں۔ میں اپنی خوشی کو بیان نہیں کرسکتا ہوں‘۔

گزشتہ طویل عرصے سے پاکستان میں قید گوپال داس کی رہائی کے حکم نامے پر ایسے وقت میں دستخط کیے گئے ہیں، جب بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پاکستانی صدر اور وزیر اعظم کو دعوت دی کہ وہ موہالی میں کھیلے جا رہے عالمی کپ کرکٹ مقابلوں کے دوسرے سیمی فائنل کو دیکھنے کے لیے بھارت کا دورہ کریں۔ یہ میچ بدھ کے دن پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے مابین کھیلا جائے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے بھارتی ہم منصب کی دعوت قبول کر چکے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں