1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں لوگ ٹیکس نیٹ میں آخر کیوں نہیں آنا چاہتے؟

19 جولائی 2019

پاکستان میں کاروباری حضرات اور خاص طور پر دکان دار ٹیکس نیٹ میں آنے سے آخر کیوں اتنا گریزاں ہیں؟ لوگوں کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ان کا حل کیا ہے؟ اس بارے میں پڑھیے افسر اعوان کا بلاگ!

Deutsche Welle | Redakteur Afsar Baig-Awan
تصویر: privat

''آر ٹی او سیالکوٹ نے مجھے پھر یاد کیا ہے۔ چار بار حساب دے چکا ہوں ان کو۔ … یہ نہیں سمجھتے کہ ’گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘۔ مجھ سے برآمد کیا کرنا ہے؟ آمدن اور خرچ کے علاوہ بینک کی تفصیلات سمیت اثاثوں کی معلومات بھی دے چکا ہوں اور پچھلی ریٹرنز کی ہارڈ کاپیز بھی۔ حالانکہ ریکارڈ ان کے پاس یہ سب کچھ پہلے سے موجود، بس پھرتیاں اور … ان کو شک ہے کہ میں کمرشل فوٹوگرافی کر کے لاکھوں کما رہا ہوں۔ لبھ لو فیر۔ جو کچھ ملے ضبط کر لینا… اب کے میں سیالکوٹ نہیں پیش ہو رہا۔ خوامخواہ کی ...۔‘‘

یہ پیغام پاکستان کے ایک معروف لینڈ اسکیپ فوٹوگرافر سید مہدی بخاری نے اپنی فیس بُک وال پر تحریر کیا ہے۔ بخاری صاحب کے ہزاروں فالوورز میں سے ایک میں بھی ہوں، کیونکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے اور دنیا کی نظروں سے اوجھل پاکستان کی خوبصورتی کی طرف سیاحوں کی توجہ دلانے میں جتنا زیادہ حصہ بخاری صاحب کا ہے، شاید ہی کسی اور کا ہو۔ اسی باعث کئی وفاقی اور صوبائی افسران سید مہدی بخاری سے اچھی طرح واقف ہیں۔

سید مہدی بخاری کی یہ تحریر نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید یہی تحریر ہی ہمارے حکمرانوں کو یہ باور کرا سکتی ہے کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے کو آخر کیوں تیار نہیں ہوتے۔  ایک انکم ٹیکس افسر اگر ان کی طرح کی معروف شخصیت کے ساتھ یہ سلوک رکھ سکتا ہے تو وہ عام شخص یا ایک کم پڑھے لکھے کاروباری شخص کے ساتھ کس طرح سے پیش آتا ہو گا؟

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان پر چڑھے پہاڑ جیسے غیر ملکی قرضوں کا سود چُکانے اور کاروبار مملکت چلانے اور سدھارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔

پاکستان بھر میں لاکھوں دکاندار، جو اپنا کاروبار تو کر رہے ہیں مگر جب انہیں انکم ٹیکس کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ ہڑتالوں اور دھمکیوں سمیت وہ ہر کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں، جو انہیں ٹیکس سسٹم میں آنے سے بچا سکے یا ان کے کاروبار اور انکم کی اصل معلومات سامنے آنے سے روک سکے۔

میرے خیال سے دکانداروں کی ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچنے کی ایک سب سے بڑی وجہ تو محکمہ انکم ٹیکس کے اہلکاروں کی بدعنوانی ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان بھر میں  دکاندار اور کاروباری حضرات ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچنے یا ٹیکس میں ڈنڈی مارنے کے لیے جتنا پیسہ ان بدعنوان اہلکاروں کو کھلاتے ہیں، اتنا پیسہ ملکی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔

انکم ٹیکس کے جمع کرائے گئے گوشواروں کی پڑتال کا خوف ٹیکس نیٹ میں نئے لوگوں کے آنے کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں انکم ٹیکس اہلکار ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں، جس کا ذکر سیدی مہدی بخاری نے اپنے پیغام میں کیا ہے۔ اسی باعث یہ دکاندار ٹیکس اہلکاروں کو ہزارہا روپے کی رشوت دے کر ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو یقینی طور پر کامیاب بھی ثابت ہوتی ہے۔

یہی طریقہ ٹیکس کی کم سے کم سطح رکھنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ٹیکس دہندہ اپنے اگلے برس کے گوشوارے میں اپنی انکم میں 30 فیصد اضافے کے ساتھ ٹیکس ادا کرتا ہے تو ایسی صورت میں اس کے ٹیکس آڈٹ میں آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا آسان طریقہ یہی ہے کہ انکم ٹیکس اہلکاروں کو رشوت دے کر کم سے کم ٹیکس اسیسمنٹ کرائی جائے۔

انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا فارم اور طریقہ کار کا پیچیدہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عام طور پر کوئی بھی کم پڑھا لکھا دکاندار اسے خود سے بھر کر محکمہ انکم ٹیکس کو نہیں بھیج سکتا بلکہ اکثر اسے اس مقصد کے لیے کسی وکیل کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو اس سے اس مقصد کے لیے ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ انکم ٹیکس اہلکاروں کی مٹھی گرم کر کے اس جھنجھٹ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کاروباری حضرات سے ٹیکس کی وصولی اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں کے لیے فِکسڈ انکم ٹیکس سسٹم رائج کر دیا جائے۔ یعنی مختلف حیثیت کے کاروباروں کے لیے مختلف فِکسڈ ٹیکس کے درجات مقرر کر دیے جائیں۔ ایسی صورت میں ایک ریڑھی والے سے لے کر ہر ایک کاروبار کرنے والے سے سالانہ ٹیکس حاصل کیا جائے۔ (ٹھیلے والے بھی ایک ہزار روپے سالانہ ٹیکس دینے پر تو شاید راضی ہو ہی جائیں گے)۔ اس طرح ہر کاروبار ٹیکس نظام میں رجسٹر بھی ہو جائے گا۔ اور لوگوں کو ٹیکس دینے کی عادت بھی پڑ جائے گی۔ اسی طرح ہر ایک کاروبار، ٹھیلوں اور چھوٹی دکانوں سمیت، کے لیے مقامی حکومت کی طرف سے اجازت نامہ ضروری قرار دیا جائے۔ یہ اجازت نامہ ابتداء میں بغیر کسی فیس کے ہی جاری کیا جا سکتا ہے تاکہ ہر ایک کاروبار کی تفصیل حکومتی ریکارڈ میں موجود ہو۔

فِکسڈ ٹیم نظام رائج کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کم از کم پانچ برسوں کے لیے جمع کرائے گئے گوشواروں کی پڑتال نہ کرنے کا اعلان اور یقین دہانی بھی ان لوگوں کے اندر موجود خوف کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد دے گی۔

اسی طرح عام اور کم پڑھے لکھے افراد کی مدد کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے  جمع کرانے کے فارم میں کم سے کم معلومات لی جائیں اور اسی اردو زبان میں ہر ممکن حد تک سادہ بنایا دیا جائے۔ پھر یہ فارم جمع کرانے کا طریقہ کار بھی آسان کیا جائے۔

محکمہ انکم ٹیکس اور ٹیکس جمع کرنے والے دیگر محکموں سے بھی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس دہندگان یا ممکنہ ٹیکس دہندگان کا اس حوالے سے خوف دور ہو سکے۔ ان محکموں کے اہلکاروں کی ایسی تنخواہیں مقرر کی جائیں کہ وہ اپنے خاندان کا خرچ با آسانی چلا سکیں اور رشوت لینے پر مجبور نہ ہوں۔

بہر حال ملک گیر سطح پر شہریوں کی آمدن اور ذرائع آمدن سے متعلق اعداد و شمار جمع کر کے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ناگزیر ہے اور موجودہ کوششوں کی حمایت کی جانا چاہیے اور اس کے مثبت مضمرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔

عوام میں یہ اعتماد پیدا کیا جانا ضروری ہے کہ عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر ہی لگے گا، اس میں کرپشن نہیں کی جائے گی۔ عوام میں یہ یقین پختہ ہو چکا ہے کہ ان کا پیسہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ عوام میں اس تاثر کا ختم کیا جانا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہو گا، جب ہر کوئی جوابدہ ہو گا، جب عوام سے جمع کیے گئے ٹیکس کی معلومات عوام کو بھی فراہم کی جائیں گی کہ ان کا پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہوا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں