پاکستان: مائع قدرتی گیس کے پانچ ٹرمینلز کی تعمیر کی منظوری
20 ستمبر 2019
پاکستانی حکومت نے ملک میں مائع قدرتی گیس کے پانچ نئے ٹرمینلز کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ جن اداروں کو یہ ٹرمینل تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان میں ایکسون موبیل کارپوریشن اور رائل ڈچ شیل جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ بیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق مائع قدرتی گیس (LNG) کے ان نئے ٹرمینلز کی تعمیر کی اجازت دیے جانے کا مقصد ملک میں توانائی کے ایک اہم ذریعے کے طور پر قدرتی گیس کی مستقل کمی پر قابو پانا اور ایسی گیس کی درآمدات کو بڑھا کر تین گنا کر دینا ہے۔
پاکستان کے وزیر توانائی اور پٹرولیم عمر ایوب خان نے آج جمعے کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ پانچوں نئے ایل این جی ٹرمینل آئندہ دو سے تین برسوں کے دوران کام کرنا شروع کر دیں گے۔
انہوں نے کہا، ''ان نئے ٹرمینلز کی تعمیر سے پاکستان میں قدرتی گیس کی مستقل قلت پر قابو پانے میں قابل ذکر حد تک مدد ملے گی۔‘‘
پاکستانی معیشت گزشتہ کافی عرصے سے قدرے مشکل صورت حال کا شکار ہے۔ جنوبی ایشیا کا یہ ملک اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر درآمدی ذرائع پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی پاکستان کو اپنے ہاں بجلی کی پیداوار اور کھاد وغیرہ جیسی مصنوعات تیار کرنے والے صنعتی اداروں کے لیے تقریباﹰ ہمیشہ ہی قدرتی گیس کی قلت کا سامنا بھی رہتا ہے۔
جن ملکی اور غیر ملکی اداروں کو یہ نئے ایل این جی ٹرمینل تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان میں جاپان کی مٹسوبیشی کارپوریشن کا ذیلی ادارہ تعبیر انرجی، ایکسون اینڈ انرگیس، ترافیگورا گروپ، پاکستان گیس پورٹ، شیل اینڈ اینگرو کارپوریشن، اور گنوَر گروپ اینڈ فاطمہ نامی ادارے شامل ہیں۔
پاکستانی وزیر توانائی عمر ایوب خان سے پہلے ان پانچوں انرجی گروپوں کے ناموں سے متعلق خبر امریکی اقتصادی نشریاتی ادارے بلومبرگ نے نشر کی تھی۔
م م / ع س (روئٹرز)
بجلی کے بحران کا مقابلہ شمسی توانائی سے
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کا بحران مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر شمسی توانائی کی طرف عدم توجہ کے باوجود عوام توانائی کے اس ذریعے سے اب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
بجلی کا بحران بڑھتا ہوا
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کا بحران مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال تقریباﹰ 6000 میگا واٹ تک ہے، جس پر آئندہ تین سالوں تک قابوپانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
بجلی چوری بڑی خرابی
واپڈا کو گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 90 بلین روپے کا خسارہ ملک میں بجلی کی چوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ((PESCO بجلی کی چوری کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف بینرز اور اشتہارات میں اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر عوام کو بجلی چوری سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
جنریٹر سے بجلی، بس سے باہر
گزشتہ سالوں میں شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پورے ملک میں جنریٹرزکے استعمال میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جنریٹرز کے استعمال میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
UPS بھی بے بس
سال 2012ء تک پورے ملک میں یو پی ایس( UPS) اور انورٹرز کو کافی پذیرائی ملی تھی۔ دو گھنٹے مسلسل چارج ہونے کے بعد یہ بجلی کی عدم موجودگی میں تین سے چار گھنٹوں تک بجلی مہیاکر سکتے ہیں۔ لیکن شدید لوڈشیڈنگ میں پوری بجلی میسر نہ ہونے کی وجہ سے UPS بھی اب ناکام ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
شمسی توانائی، امید کی کرن
CEMCO نامی ایک پرائیویٹ ادارے کے سربراہ محمد حیان شمسی توانائی کے بارے میں آگاہی مہم کے دوران اعلیٰ قسم کے سولر پینل اور اس سے چلنے والے آلات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں جرمنی کے سولر پینل سب سے زیادہ پائیدار ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
سولر اسٹریٹ لائٹس
پشاور کی مختلف شاہراہوں پر شمسی توانائی سے چلنے والی سٹریٹ لائٹس نصب کی گئی ہیں، جو دن کو سورج کی روشنی سے چارج ہوکر پوری رات اجالا کرتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
پاکستان سولر انرجی کے لیے آئیڈیل ملک
پاکستان میں اوسطاﹰ تقریبا 16 گھنٹے سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی کو اگر صحیح طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو پاکستان شمسی توانائی سے سات لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
سولر سسٹمز میں عوام کی بڑھتی دلچسپی
سولر سسٹم کے استعمال میں اضافے کے پیش نظر پشاور کی مختلف مارکیٹوں خصوصاﹰ کارخانوں اور باڑہ مارکیٹ میں شمسی توانائی سے چلنے والے آلات کی کئی دکانیں نظر آتی ہیں۔ ان دکانوں میں 6 سے 12 واٹ پر چلنے والے پنکھے، بلب، روم کولر اور استریاں بھی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
شمسی توانائی پر چلنے والا ریڈیو اسٹیشن
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں واقع سرکاری ریڈیو اسٹیشن ’خیبر ریڈیو‘ کو بھی شمسی توانائی سے چلایا جا رہا تھا لیکن یہ ان دنوں کچھ انتظامی معاملات کی وجہ سے بند ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
صحافی بھی شمسی توانائی کے شکر گزار
لوڈشیڈنگ کے دوران تحصیل جمرود کے پریس کلب میں صحافی شمسی توانائی کے ذریعے یہاں موجود کمپیوٹرز وغیرہ کو چلاتے ہیں اور علاقے کی خبریں اخبارات اور دوسرے اداروں تک بھیجتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
قبائلی علاقے شمسی توانائی سے استفادے میں آگے
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کبھی کبھی بجلی کئی کئی دنوں تک نہیں ہوتی، اس لیے ان علاقوں میں سولر سسٹم سے بجلی حاصل کرنے کا رجحان دوسرے علاقوں کے نسبت زیادہ ہے۔ خیبر ایجنسی میں تقریباﹰ ہر خاص و عام کے گھر کی چھت پر سولر پینل نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
جرمن سولر پینل مقبول
پاکستان میں شمسی توانائی سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ جرمنی دنیا میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے والا سب سے بڑاملک ہے، اس لیے وہاں سے درآمد کردہ سولر پینل بہترین کوالٹی کے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سب کو جرمنی کے سولر پینلز کا مشورہ دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
پشاور چھاؤنی شمسی توانائی سے روشن
پشاور چھاوٴنی (مال روڈ) کا رات کا منظر، جہاں شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس روشن ہیں۔