پاکستان میں ماضی کے سیاسی اتحادوں کی ٹوٹ پھوٹ اور پی ڈی ایم
عبدالستار، اسلام آباد
9 اپریل 2021
عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی طرف سے حالیہ مخالفانہ بیانات کے بعد پاکستان میں کئی سیاسی حلقے یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم نامی اپوزیشن اتحاد بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
اشتہار
اس تناظر میں ڈی ڈبلیو نے پاکستان کی تاریخ میں سیاسی اتحادوں کے بننے اور ٹوٹنے کے حوالے سے مختلف سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں سے بات چیت کی۔ پی ڈی ایم نے چند روز پہلے عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وضاحت طلب کی تھی، جس پر یہ دونوں جماعتیں نالاں تھیں۔ چند سیاسی حلقوں کا یہ خیال بھی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے مریم نواز شریف پر آمرانہ رویہ اپنانے کا الزام لگایا ہے اور پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ کو ان کے اسی رویے سے جوڑا گیا ہے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سینیٹ کے الیکشن، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب، ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف کے لیے نامزدگی، پارلیمنٹ سے استعفوں اور لانگ مارچ سمیت کئی مسائل پر اختلافات چل رہے تھے۔ انہی اختلافات کی بنیاد پر متعدد حلقوں کی رائے میں یہ اپوزیشن سیاسی اتحاد اب مزید نہیں چل سکتا۔
پاکستان میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ
وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ملک کی اپنی تاریخ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلا سیاسی اتحاد50 کی دہائی میں جگتو فرنٹ کے نام سے بنا، جس کا مرکز اس وقت کا مشرقی پاکستان تھا۔ اس میں کمیونسٹ پارٹی، عوامی لیگ اور کئی دوسری جماعتیں شامل تھیں اور یہ مسلم لیگ کے خلاف تھا۔ اس اتحاد نے بنگال میں نورالامین کو شکست دی اور وہاں فضل حق صوبائی الیکشن جیتے تھے۔ یہ صوبائی انتخابات اس وقت کے سرحد، سندھ اور پنجاب میں ہوئے۔ ہماری سیاسی زبان میں جھرلو انتخابات کی اصطلاح اسی وقت آئی کیوں کہ تین صوبوں میں الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ بلوچستان میں اس طرح انتخابات نہیں ہوئے تھے جب کہ بنگال میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔ اس اتحاد نے بنگال کے صوبائی خود مختاری کے نعرے کو فروغ دیا، جس کو مغربی پاکستان کے قوم پرستوں نے بھی سپورٹ کیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ ایوب خان کے دور میں دو سیاسی اتحاد بنے، ''پہلا اتحاد انتخابی تھا، جس میں فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امیدوار تھیں اور ان کی جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں نے حمایت کی تھی جبکہ دوسرا سیاسی اتحاد ایوب خان کے زوال سے کچھ عرصے پہلے بنا اور اس کا بنیادی ہدف ایوب خان کی آمریت کو ختم کرنا تھا۔‘‘ توصیف احمد خان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد بنا تھا، ''اس اتحاد نےنظام مصطفیٰ کا نعرہ بھی لگایا۔ جنرل ضیا کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت، بے نظیر بھٹوکے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد، اور مشرف کے دور میں اتحاد برائے بحالی جمہوریت بھی تشکیل دیا گیا تھا۔‘‘
کئی سیاسی مبصرین کے مطابق ان بڑے سیاسی اتحادوں کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے سیاسی اتحاد بنتے رہے تھے، جیسے متحدہ مجلس عمل، جس میں ملک کی بڑی اور چھوٹی مذہبی تنظیمیں شامل تھی جبکہ فوجی حکمران مشرف کے دور میں آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے بھی ایک اتحاد بنا تھا، جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ تاہم تب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
اتحاد ٹوٹتے کیوں ہیں؟
ان بڑے سیاسی اتحادوں کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی اتحاد بنتے رہے، جیسے بلوچستان میں بلوچستان نیشنل الائنس یا سندھ میں کالاباغ ڈیم اور گریٹر تھل کینال کے خلاف مختلف سیاسی اتحاد بنے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ سیاسی اتحاد عموماﹰ قلیل المدتی مفادات کی بنیاد پر بنتے ہیں اور ان کی بنیاد اصولی نہیں ہوتی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چونکہ ان کی بنیاد عوامی مسائل پر نہیں ہوتی۔ سیاسی رہنما وقتی طور پر اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد وہی اختلافات دوبارہ رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً جب انتخابات قریب ہوں تو یہ اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں اور یوں ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسے اتحاد توڑنے میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی کردار ہوتا ہے، جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ ایم آر ڈی میں غلام مصطفیٰ جتوئی اور تحریک بحالی جمہوریت میں مخدوم امین فہیم کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ تھا۔‘‘ سینیٹر اکرم بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان سیاسی اتحادوں کی بنیاد عوامی مسائل پر ہو، تو وہ مضبوط رہتے ہیں۔
اشتہار
معاشی پروگرام اور اتحاد
پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ جس سیاسی اتحاد کا کوئی معاشی اور سماجی پروگرام نہیں ہو گا، وہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں بتایا، ''ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اتحاد کا حصہ اس لیے نا بنے کہ اس اتحاد کا کوئی سماجی اور معاشی پروگرام نہیں تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے آمریت کے خلاف لڑائی نہیں لڑی۔ ہم نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ پورے پاکستان کی ٹریڈ یونینیں ہمارے ساتھ تھیں جبکہ کسانوں اور مظلوم طبقات کی بڑی تعداد بھی ہماری حامی تھی۔‘‘
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
پیپلز پارٹی کو کیوں نکالا؟
سینیٹر تاج حیدر کے مطابق پی ڈیم ایم بھی اس وجہ سے ٹوٹی کہ اس کا کوئی معاشی اور سماجی پروگرام نہیں ہے، ''اس کے علاوہ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نکالا گیا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسمبلی سے استعفے دینے کے بعد انتخابات ہوں اور اس میں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لے اور اٹھارہویں ترمیم کو ختم کردیا جائے۔ استعفوں کی تو بات ہوتی تھی، لیکن اس کے بعد کی کوئی اسٹریٹیجی نہیں تھی۔‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے بقول ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو نکال کر غلطی کی، ''اب پی ڈی ایم مولویوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور ملک میں رجعت پسند قوتیں مزید طاقت ور ہو جائیں گی۔ سیاسی تحریکوں کے نتائج ایک دن میں نہیں آتے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1960 میں شروع ہوئی تھی اور اس کا نتیجہ کئی سال بعد نکلا تھا۔ بالکل اسی طرح جنرل ضیا کے خلاف تحریک انیس سو تراسی میں شروع ہوئی اور انتخابات 1988 میں ہوئے تھے۔ اس لیے مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کو بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔‘‘
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فاروق سلہریا کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت تمام صوبوں میں کبھی موجود نہیں رہی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان پیپلز پارٹی شاید وہ پہلی جماعت تھی جس کی تمام صوبوں میں کسی نا کسی حد تک موجودگی تھی۔ لیکن بھٹونے بلوچستان میں جو آپریشن کیا، اس سے اس جماعت کو مزید نقصان پہنچا۔ پاکستان میں قومی سوال بھی اہم ہے اور کوئی طبقاتی جماعت بھی نہیں ہے، اسی لیے پھر سے نئے اتحاد بنانا پڑتے ہیں۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔