1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں مردوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی بڑھتے ہوئے

شازیہ محبوب
1 نومبر 2025

پاکستان میں ہراسانی عموماً خواتین کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے، مگر بدلتے سماجی رویے ایک نیا پہلو سامنے لا رہے ہیں، مردوں کا ہراساں کیا جانا۔ کافی زیادہ پاکستانی مردوں کو بھی اب ہراسانی اور بلیک میلنگ جیسے جرائم کا سامنا ہے۔

پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ہراسانی اور موبنگ کا شکار ایک نوجوان طالب علم
پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ہراسانی اور موبنگ کا شکار ایک نوجوان طالب علمتصویر: Farooq Azam/DW

ماہرین کے مطابق مردوں کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات میں حالیہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک خاموش مگر سنجیدہ مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔

اسلام آباد کے رہائشی ناصر (انہوں نے اپنا پورا نام ظاہر کرنے سے احتراز کیا) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنی سابقہ بیوی کے خلاف ساکھ کو نقصان پہنچانے کی شکایت ایف آئی اے میں درج کرا رکھی ہے۔ ان کے مطابق ان کی سابقہ بیوی نے ان کی شادی کی تصاویر اور ذاتی دستاویزات سوشل میڈیا پر شیئرکیں، جس سے ان کی خاندانی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا، ''میری نجی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی، جبکہ لوگ میرے کردار پر شک کرنے لگے ہیں۔ آخرمرد انصاف کے لیے کہاں جائیں؟‘‘

آسٹریلوی کرکٹرز کی جنسی ہراسانی پر بھارتی وزیر کا متنازعہ بیان

پاکستانی دارالحکومت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہنی ٹریپ سمیت ہراسانی کے واقعات، چاہے وہ  خواتین اور عام مردوں کے درمیان ہوں یا آپس میں شادی شدہ افراد کے طور پر بیوی اور شوہر کے درمیان، تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

مردوں کو ہراساں کیا جائے تو وہ عموماﹰ خود کو بےبس محسوس کرتے اور سماجی شرمندگی کے خوف سے خاموشی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

کسی مرد کو بلیک میل کیسے کیا جا سکتا ہے؟

پاکستانی غیر حکومتی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد نے کہا کہ مردوں کے لیے اپنے ساتھ ہراسانی کی شکایات درج کرانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ ان کی ''مردانگی‘‘ پر سوال اٹھ سکتا ہے یا انہیں ''کمزور‘‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر یہ سماجی سوچ مردوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ بھلا ''کسی مرد کو بلیک میل کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘

نگہت داد کے مطابق ایسے مردوں کو یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی شکایات کو خواتین کی شکایات کے مقابلے میں کم سنجیدگی سے لیں گے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق سال 2020 سے اکتوبر 2025 تک مجموعی طور پر 18 ہزار 196 شکایات موصول ہوئیں۔ 2020 میں ان کی تعداد 3,298، اگلے برس 2021 میں 4,441، جبکہ 2024 میں 3,171 رہی۔ رواں برس کے دوران اکتوبر کے آغاز تک بھی ایسی 2,118 نئی شکایات درج کرائی جا چکی تھیں۔

پاکستانی میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو ہراساں کیے جانے کا رجحان

نگہت داد کے مطابق زیادہ تر متاثرہ مرد کوئی قانونی مدد لینے کے بجائے رقم ادا کر کے یا ذاتی تعلقات کے ذریعے معاملہ ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ تب ہی کوئی قانونی کارروائی کرنے پر غور کرتے ہیں، جب بلیک میلنگ بڑھ جائے یا سوشل میڈیا پر ساکھ واضح طور پر خطرے میں ہو۔

ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےتصویر: Irfan Aftab/DW

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق مردوں کی جانب سے زیادہ تر بلیک میلنگ اور ہنی ٹریپ کے کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں، جو اکثر رقم ادا کر دینے پر ختم ہو جاتے ہیں۔

مرد بھی انصاف کے مستحق

پاکستان میں سماجی موضوعات پر کام کرنے والی فرزانہ باری کے مطابق ہراسانی کا تعلق کسی صنف سے نہیں بلکہ طاقت کے عدم توازن سے ہوتا ہے۔ جب طاقتور افراد کمزور پوزیشن والے مردوں یا عورتوں کا استحصال کرتے ہیں، تو یہ ناانصافی صنفی ہراسانی کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آگاہی، انصاف اور مدد کے نظام مردوں کے لیے بھی اسی طرح دستیاب ہونا چاہییں، جیسے خواتین کے لیے ہیں۔

پاکستان: خواتین کی سوشل میڈیا پر شہرت، اصل قیمت کہیں زیادہ

فرزانہ باری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مرد ہراسانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنسی استحصال کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے بقول کام کی جگہوں اور غیر رسمی محنت کش ماحول میں بالخصوص کم عمر اور نچلے طبقے کے مرد متاثر ہوتے ہیں، مگر چونکہ اکثر کیسز میں فریقین مرد ہوتے ہیں، تو یہ معاملات بالعموم دب جاتے ہیں۔

نگہت داد کے مطابق شکایات کے لیے محفوظ، صنفی سطح پر غیرجانبدارانہ اور باعزت نظام قائم کرنا ضروری ہے تاکہ متاثرہ مرد بھی بلا خوف و جھجھک انصاف حاصل کر سکیں۔

کام کی جگہوں پر صرف خواتین ہی کو جنسی طور پر ہراساں نہیں کیا جاتا (تصویر) بلکہ ایسا بہت سے مردوں کے ساتھ بھی ہوتا ہےتصویر: Andrey Popov/Depositphotos/IMAGO

ڈیجیٹل شناخت کو پہنچنے والا نقصان

سوشل میڈیا پر ہراسانی کا شکار ہونے والے ایک صارف نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کئی سال سے جانوروں کی فلاح کے لیے سرگرم تھے اور ٹک ٹاک پر ان کے تین لاکھ سے زائد فالورز تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا، اور ہیکر نے اس پر پرفیوم کی تشہیری ویڈیوز اپ لوڈ کر دیں، جس سے ان کی ساکھ اور ڈیجیٹل شناخت کو شدید نقصان پہنچا۔

ایمان خلیف کا کھلاڑیوں کے خلاف ہراسانی کے خاتمے پر زور

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،  ''یہ صرف میرے اکاؤنٹ کی ہیکنگ نہیں تھی، بلکہ میری برسوں کی محنت اور مجھ پر کے جانے والے اعتماد پر حملہ بھی۔ اس واقعے نے میرے لاکھوں فالورز کو الجھا دیا اور میرے پیشہ وارانہ اور خاندانی تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا۔‘‘

قانونی نظام خواتین کے حق میں

ڈاکٹر ثمر راؤ نامی ایک ماہر نے بتایا کہ مروجہ سماجی رویوں کے باعث اکثر لوگ تسلیم نہیں کرتے کہ مرد بھی کسی ناپسندیدہ پیش رفت یا ہراسانی کے بعد شرمندگی محسوس کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ایسے مردوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، انہیں کمزور سمجھا جاتا ہے، جبکہ قانونی نظام بھی اکثر خواتین کے حق میں جھکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ معاشرہ مردوں کے جذباتی اور نفسیاتی زخموں کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسی لیے بہت سے متاثرہ مرد اپنے ہراساں کیے جانے کے واقعات کو رپورٹ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں لڑ کوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ

05:20

This browser does not support the video element.

فر زانہ باری کے بقول مردوں کے لیے زیادہ تر نہ تو کوئی تربیتی سیشنز ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ آگہی دی جاتی ہے کہ ہراسمنٹ کی صورت میں وہ بھی شکایات درج کرا سکتے ہیں، '' عام سماجی تاثر بس یہی ہے کہ ہراسمنٹ تو صرف خواتین ہی کا مسئلہ ہے۔‘‘

فرزانہ باری نے مزید کہا کہ میڈیا، سول سوسائٹی اور ریاست تینوں کو ہی اس معاملے میں اپنا اپنا معاون کردار ادا کرنا چاہیے، اور خاص طور پر ریاست کو بھی عملاﹰ یہ واضح کرنا چاہیے کہ صنفی اور جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین کا اطلاق مردوں اور خواتین دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔

بھارت: کروڑوں خواتین ویڈیو گیمرز آن لائن ہراسانی کا شکار

پاکستان میں ہراسانی سے تحفظ کے لیے وفاقی محتسب کے سیکرٹریٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار وقار احمد کے مطابق مردوں کی جانب سے ہراسمنٹ کی شکایات محدود ہیں اور زیادہ تر کیسز میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کے مرد شامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب اسکولوں اور مدارس میں بھی نوجوان لڑکوں کے تحفظ پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، جہاں ''گڈ ٹچ / بیڈ ٹچ‘‘ نامی پروگرام کے ذریعے نوجوان لڑکوں کو ہراسمنٹ کے خلاف زیادہ باشعور بنایا جا رہا ہے۔

ادارت: مقبول ملک

جنسی استحصال: آن لائن شکاریوں کو کیسے روکا جائے؟

05:36

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں