پاکستان میں مزید ڈرون حملے، ہلاکتوں کی تعداد انتیس ہو گئی
12 اکتوبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے ہفتے کو بتایا کہ امریکی ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں تازہ حملے کیے، جن کے نتیجے میں کم ازکم چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔ اسی علاقے میں دو روز قبل ہونے والے ایک ایسے ہی حملے میں بھی چار مشتبہ جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔
شوال میں ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’بغیر پائلٹ کے طیاروں نے ایک گاڑی پر دو میزائل فائر کیے، جن کے نتیجے میں چار جنگجو ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں شدت پسندوں کا ایک اعلیٰ مقامی کمانڈر بھی شامل ہے۔‘‘ اس اہلکار نے مزید کہا کہ یہ حملے ہفتے کی صبح طلوع آفتاب کے وقت ہوئے۔
ایک اور اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے البتہ یہ بھی کہا ہے کہ اس کارروائی میں مقامی اور غیر ملکی جنگجو مارے گئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اے ایف پی نے سکیورٹی ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے حملوں میں اضافہ شاید ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ کے حوالے سے انٹیلی جنس رابطوں میں بہتری کے باعث ہوا ہے۔
افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی نیم خود مختار قبائلی علاقہ جات کو ایک عرصے سے اسلامی شدت پسندوں کا ایک ٹھکانہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ وہاں القاعدہ نیٹ ورک کے ممبران کے علاوہ ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند بھی محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان جنگجوؤں میں غیر ملکی بالخصوص ازبک اور ایغور نسل کے شدت پسند بھی شامل ہیں۔
واشنگٹن حکومت پاکستان کو متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ امریکی حکومت کے مطابق وہاں چھپے جنگجو سرحد پار کارروائی کرتے ہوئے افغانستان میں نیٹو فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
پاکستان نے جون میں شمالی وزیرستان میں ان جنگجوؤں کے خلاف ’ضرب عضب‘ کے نام سے ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا، جس کا مقصد ان علاقوں کو شدت پسندوں سے پاک بنانا ہے۔ پاکستانی فوج کے مطابق اب تک اس عسکری آپریشن میں ایک ہزار سے زائد جنگجو لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ شدت پسندوں کے خلاف اس عسکری مہم کے دوران 86 فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔ ان علاقوں میں صحافیوں کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے وہاں ہونے والے آپریشن اور ہلاکتوں کے بارے میں آزادانہ ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔