پاکستان میں مشتبہ فرقہ ورانہ حملہ، چار ہزارہ شیعہ شہری قتل
مقبول ملک اے پی
19 جولائی 2017
پاکستانی صوبہ بلوچستان کے شہر مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایک ہزارہ شیعہ خاندان کے چار افراد کو قتل کر دیا۔ اس حملے میں کُل پانچ افراد مارے گئے۔ پانچواں مقتول اس خاندان کا سنی مسلم ڈرائیور تھا۔
اشتہار
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے بدھ انیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے میں نامعلوم حملہ آوروں نے، جو ایک موٹر سائیکل پرسوار تھے، نسلی طور پر ہزارہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے ارکان پر اس وقت فائرنگ شروع کر دی، جب وہ اپنی گاڑی میں شہر کی مرکزی آر سی ڈی شاہراہ پر سفر میں تھے۔
مقامی پولیس اہلکار محمد اسحاق نے بھی تصدیق کی کہ یہ حملہ مستونگ شہر میں کیا گیا، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 75 کلومیٹر یا 45 میل جنوب کی طرف واقع ہے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد مارے گئے۔ ہزارہ شیعہ خاندان کے چار ہلاک شدگان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ اسی حملے میں مارا جانےو الا ڈرائیور ایک سنی شہری تھا، جو اس خاندان کا رکن نہیں تھا۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
9 تصاویر1 | 9
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس حملے کی فوری طور پر کسی بھی عسکریت پسند یا فرقہ پرست گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ ماضی میں سنی مسلم شدت پسندوں کی مختلف ممنوعہ تنظیمیں ایسے حملوں کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہیں۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں کسی مسلح حملے میں ملکی سطح پر شیعہ مسلم اقلیت کے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
ماضی میں بھی وہاں خاص طور پر مذہبی منافرت کی بناء پر ہزارہ شیعہ برادری کے افراد یا اجتماعات پر خونریز حملوں کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
مستونگ ہی میں اس سال 12 مئی کو پاکستانی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور جمیعت علمائے اسلام (ف) نامی مذہبی سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے گاڑیوں کے ایک سفری قافلے پر بھی ایک بڑا خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے۔
بلوچستان کو جو پاکستان کا سب سے کم آبادی لیکن سب سے زیادہ رقبے والا اور معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، ایسے بلوچ قوم پسندوں کی چند مسلح تحریکوں کی وجہ سے علیحدگی پسندی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے، جو اس صوبے کی علیحدگی یا اس کے لیے زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبے میں تیل، گیس اور معدنیات کے وسائل میں سے بلوچ آبادی کے لیے زیادہ حصے کے مطالبے بھی کرتے ہیں۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔