1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کا اصل دشمن کون ہے؟

9 فروری 2021

پاکستان کے آئین کے مطابق ایک سو بیس دنوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانا لازمی ہے لیکن پاکستان کے کسی بھی صوبے میں اس وقت مقامی حکومتیں کام نہیں کر رہی ہیں۔

Wahlen in Pakistan 2013 Symbolbild Hochrechnung
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

آج کل پاکستان کی سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ایک اہم مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے روبرو پنجاب حکومت نے اسی سال جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں تین مراحل میں یہ انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے عدالت کے سامنے اپریل اور مئی کے مہینوں میں دو مرحلوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے اس مقدمے کو گیارہ فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔بلدیاتی الیکشن: سوات میں اٹھارہ سابق دہشت گرد بھی امیدوار

ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشل کی رپورٹ

اس حوالے سے حال ہی میں جرمنی کے ایک غیر سرکاری ادارے ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشل نے پاکستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے۔ اس مقالے کے حوالے سے ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشل  پاکستان کے سربراہ جاوید ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے حالات کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر جمہوری حکومتیں اپنی حکومت کے قیام کے دو سال کے اندر مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کرواتیں تو پھر ان کے لئے یہ انتخابات کروانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جاوید ملک کا خیال ہے کہ اس معاملے کو ایک سیاسی مئسلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیئے اور اس پر ایک سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں لوکل گورنمنس ہوتیں تو کورونا وبا سے بہتر انداز میں نمٹا جاتاتصویر: DW/T. Shahzad

اراکین اسمبلی کا خوف

پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اراکین اسمبلی قانون سازی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ترقیاتی منصوبوں کی سیاست سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ مقامی حکومتوں کا نظام آنے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ایسا ہونے سے ترقیاتی فنڈز سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں اور مقامی ترقیاتی امور میں ان کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ مقامی سیاست پر اجارہ داری رکھنے والے کئی پرانے سیاسی خاندان مقامی حکومتوں کے نتیجے میں سامنے آنے والی نئی قیادت کو بھی اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی عوام کی پُرجوش شرکت

خدمت کی سیاست مفقود

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لوکل کونسلزایسوسی ایشن کے ڈائریکٹرانور حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں خدمت کی سیاست کی جگہ سیاست کی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن جیت کر آتے ہیں وہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کوئی اور لے جائے۔

پاکستانی سول سوسائٹی کے نمائندے بھی مقامی حکومتوں کے معاملے پر تشویش رکھتے ہیںتصویر: DW/T. Shahzad

انور حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سڑکیں بنوانے اور گلیاں پکی کروانے کو ہی ارکان اسمبلی اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔  انور حسین کا خیال ہے کہ پاکستان میں منتخب ارکان پارلیمنمٹ نہیں چاہتے کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام تقویت پکڑے۔اسلام آباد میں پہلے بلدیاتی الیکشن کے لیے ووٹنگ جاری

مقامی حکومتوں میں اراکین اسمبلی کی شرکت

ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشل پاکستان کے سربراہ جاوید ملک اس مئسلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے کے لئے ممبران اسمبلی کو مقامی حکومتوں کے نظام میں کوئی رول دے دینا چاہیئے تاکہ وہ اس نظام سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اس کا حصہ بن کر کچھ نہ کچھ رول ادا کر سکیں۔ جاوید ملک بتاتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ایک بڑی رکاوٹ پاکستان کی بیوروکریسی بھی ہے۔ ان کے مطابق بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہو گیا تو ان کا معاملات پر کنٹرول کم ہو جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ صوبائی وزرا مقامی حکومتوں کے معاملے پر دوری اختیار کیے ہوئے ہیں، ایک پاکستانی صوبے کے وزیر برائے مقامی حکومتوں تقریب انعامات میں تصویر: Imago/ZUMA Press

کونسلر کی افادیت

جاوید ملک بتاتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے پنجاب اور کے پی کے قوانین بہتر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان کے قوانین میں اب بھی بیورو کریسی کو زیادہ طاقت دی گئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا ایک بڑا ملک ہے سرکاری افسروں کا نیٹ ورک آبادی کے حساب سے بہت چھوٹا ہے۔اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ’تبدیلی مشکل ہے‘

ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازم پانچ بجے کے بعد چھٹی کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں جبکہ کونسلرعلاقے میں چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے۔ ان کی رائے میں اگر آج مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہوتا تو ہم کورونا کے بحران کا مقابلہ زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے تھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں